’میری بیوی کو شادی کے فوراً بعد حمل ٹھہرا۔ بالکل ٹھیک تھی۔ 3، 4 دن پہلے رات کو اسے پیٹ میں نیچے کی طرف دباؤ محسوس ہوا۔ پھر خواب میں کالے بال نظر آئے۔ ہم نے اپنے پیر سے رجوع کیا تو انہوں نے تعویز دیا اور بتایا کہ جنات کی جھپٹ میں آگئی ہے، اٹھراہ کی شکایت ہے۔ بہت پریشان ہوں، کچھ بتائیے‘۔

بھائی تمہاری پریشانی سر آنکھوں پر مگر اب پریشانی یہ ہے کہ ہم بہت پریشان ہوئے تمہارا نامہ پڑھ کر۔ کچھ الفاظ نے تو ہمارے اوسان ہی خطا کر دیے جیسے پیر، جنات کی جھپٹ اور اٹھراہ۔۔۔ اللہ اللہ۔

فوراً ایک سوال ذہن میں آیا کہ فرنگیوں کے دیس میں حاملہ عورتیں ان جنات کی نظر سے کیونکر بچی رہتی ہیں؟ جنات کا پسندیدہ علاقہ پسماندہ ملک ہی کیوں ہیں؟ پیر صاحب کے تعویز میں لکھا عمل ہمیں بھی بتائیے کہ ہم بھی مریضوں کے علاج کریں۔۔۔ ناحق ڈاکٹری کتابیں پڑھ پڑھ کر جوانی گزار دی۔

معاف کیجیے گا ہم طنز کرنے کے موڈ میں ہر گز نہیں لیکن 21ویں صدی میں عورت کے مسائل کا حل پیر اور جنات کے حوالے سے کیا جانا تکلیف اور دکھ کا باعث بنتا ہے۔

حمل کیوں ضائع ہوتا ہے؟

حمل کا آغاز ہوتا ہے جب اسپرم انڈے کے ساتھ ملے اور جنین میں تبدیل ہوجائے۔ یہ ملاقات ایسی باریک سی نالی میں ہوتی ہے جسے ہم کبھی کبھی ہنستے ہوئے نہر کا پل کہتے ہیں۔ ایک طرف سے اسپرم انڈے کو ڈھونڈتے ہوئے بڑھتے چلے آرہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف سے انڈا، انڈے دانی سے نکل کر ٹیوب کی طرف خراماں خراماں چہل قدمی کر رہا ہوتا ہے۔ ٹیوب میں ملاپ کے بعد جنین وجود میں آتا ہے اور آہستہ آہستہ رحم یا بچے دانی کی طرف چل پڑتا ہے۔ کچھ سینٹی میٹر کا فاصلہ ایک ہفتے میں طے ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ جنین یا مستقبل کے بچے میں جینیاتی فیکٹری چل رہی ہوتی ہے۔

جیسا کہ فیکٹری میں بننے والا وہ مال جو کوالٹی میں ناقص ہو علیحدہ کر دیا جاتا ہے اسی طرح اس کارخانے میں بننے والے سب جنین مکمل نہیں ہوتے۔ ناقص جنین کو اسی مرحلے پر روک دینے کا نام اسقاط حمل ہے۔ گویا یہ قدرت کا دفاعی نظام ہے جو کسی بھی وجہ سے معذور جنین کو دنیا میں آنے سے روکتا ہے۔

قدرت کا دفاعی نظام معذور جنین کو دنیا میں آنے سے روکتا ہے
قدرت کا دفاعی نظام معذور جنین کو دنیا میں آنے سے روکتا ہے

آپ پوچھ سکتے ہیں پھر ہمیں اردگرد بہت سے ایسے بچے کیوں نظر آتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو مدافعتی نظام کا فیل ہونا ہے اور دوسرا۔۔۔ دوسرا اگر ماں باپ ضائع ہوتے حمل کے سامنے بند باندھ دیں۔۔۔ تعویذ اور بے شمار دوائیں۔

لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر ضائع ہونے والا حمل ابنارمل ہی ہو۔ حمل ساقط ہونے کی بہت سی وجوہات اور بھی ہیں جو مدت حمل کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ پہلے تین مہینوں میں ساقط ہونے والے زیادہ تر حمل ابنارمل کروموسومز کی وجہ سے ہوتے ہیں یعنی کروموسومز کی زیادتی یا کمی اور فطرت کا کوالٹی کنٹرول۔

3 سے 6 ماہ کی مدت میں ہونے والے اسقاط کی وجوہات میں رحم کی کمزوری، انفیکشن، آٹو امیون بیماریاں، ذیابیطس، آنول کی کمزوری، والدین کی بڑھتی عمر، کزن میرج اور جینیاتی طور پر خون کے گاڑھا ہوکر جم جانے میں خرابی کا موجود ہونا ہے۔

اگر 3 یا زیادہ حمل یکے بعد دیگرے ساقط ہو جائیں تو صورتحال Recurrent Miscarriages کہلاتی ہے۔ اب لازم ہے کہ آٹو امیون اور جینیاتی ٹیسٹ کروائیں جائیں۔ یہ ٹیسٹ تیسرے حمل کے ساقط ہونے کے تین ماہ بعد کروائے جاتے ہیں۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حمل تو باربار ساقط ہو رہا ہوتا ہے لیکن ٹیسٹ میں نتیجہ کسی بیماری کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوتا، ایسے مواقع پر ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سبب جینیاتی ہی ہوگا لیکن خون میں زہریلے مادوں کا لیول اتنا کم ہوگا کہ لیبارٹری میں پکڑا نہیں جارہا۔

یہ سب اسباب Thrombiphilia اور Anti phospholipid syndrome کی چھتری کے نیچے رکھے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھ لی جائے کہ ان بیماریوں کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے کہ 3 یا 3 سے زیادہ متواتر حمل ساقط ہو جائیں۔

صاحب یہی recurrent miscarriages ہی وہ صورتحال ہے جو پیر صاحب اٹھراہ کا نام لے کر آپ کو ڈراتے ہیں۔ رہ گئی جنات کی جھپٹ تو واللہ حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ان جن صاحب کا دیدار ہو جنہوں نے نہ صرف ہمارے 3 حمل جھپٹے بلکہ ہماری آپا کو بھی نہ چھوڑا۔

اگر 3 یا زیادہ حمل یکے بعد دیگرے ساقط ہو جائیں تو صورت حال Recurrent Miscarriages کہلاتی ہے
اگر 3 یا زیادہ حمل یکے بعد دیگرے ساقط ہو جائیں تو صورت حال Recurrent Miscarriages کہلاتی ہے

ہماری اماں کو آس پاس والیوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ تمہاری بیٹی اٹھراہ کی شکار ہے لیکن ہماری معصوم اور ذہین ماں ہر کسی کو جواب دیتیں ’نہیں بھئی سب اللہ کے کام ہیں، بس اسی کی منظوری چاہیے‘۔

لطف کی بات یہ تھی کہ اماں کے ماموں ایک ایسے نامی گرامی پیر تھے جو نہ صرف حلقہ مریدین رکھتے تھے بلکہ کسی گدی وغیرہ کے مالک بھی تھے۔ دوسری طرف ابا کے ماموں بھی ٹکر کی چوٹ تھے۔ تسبیحات، جن، مرید اور تعویذ وہاں بھی گھر ہی کی پیداوار تھے۔ آج بھی لوگوں کے حافظے میں ان کا نام موجود ہے۔ ہمارے ابا نے ہائی اسکول کی تعلیم انہیں ماموں کے گھر رہ کر حاصل کی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے گھروں میں پرورش پانے والے دو لوگ ذہنی طور پر اس قدر ماڈرن کہ گھر میں کبھی کسی پیر یا تعویذ کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ آپا کے دو حمل ساقط ہوئے تو ساس نے شور مچا دیا ’ہائے ہائے میرا اکلوتا بیٹا۔۔۔‘۔ دوڑی دوڑی پہنچیں اماں کے پاس اور کہہ دیا پیر ماموں سے مشورہ لینے کا۔ ایک ہی جواب تھا ہماری اماں کے پاس۔۔۔ ’چھڈ نی جناں شناں نوں، اللہ کولوں ودھ کے تے نئیں۔ جدوں اللہ دی مرضی ہوئے گی، اک منٹ وی نئیں لگنا کم سدھا ہون وچ۔ بس ڈاکٹر نوں وکھاؤ تے دوائی کھاؤ جے کوئی مشکل ہے‘۔ (چھوڑو سب جنوں کی باتیں، اللہ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جب اللہ کی مرضی ہو گی تب ایک منٹ بھی نہیں لگے گا کام سیدھا ہونے میں۔ بس ڈاکٹر کو دکھا کر دوائی لے لو اگر کوئی مشکل ہے تو)۔

اماں کا تعلق تو 20ویں صدی کی تیسری دہائی سے تھا۔ سوچیے ہمارا کیا حال ہوا ہوگا جب ایک پڑھی لکھی خاتون کی زبانی سنا کہ ’ہماری بہو کا حمل ٹھہرتا ہی نہیں، دوسرا مہینہ شروع اور حمل ختم۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ بچہ پیدا کر سکے گی‘۔

پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے منہ میں انگلی دابنے کے علاوہ ہم کچھ نہ کر سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں