اقتصادی بحران کے سبب دواساز کمپنیاں پیداوار روکنے پر مجبور، ادویات کی قلت میں اضافے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2023
خام مال کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے سبب فارما انڈسٹری کو شدید دھچکا لگا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
خام مال کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے سبب فارما انڈسٹری کو شدید دھچکا لگا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک بھر کی مارکیٹوں میں ادویات کی قلت میں مسلسل اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ 140 دواساز کمپنیوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کو تقریباً 1300 ادویات (مالیکیولز) کی فہرست جمع کرائی ہے جن کی پیداوار موجودہ اقتصادی بحران کے سبب روک دی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے ساتھ ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دواساز کمپنیوں کے 100 سے زائد چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) نے حکومت کو مایوس کن صورتحال سے آگاہ کیا۔

چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) سید فاروق بخاری اور دیگر اراکین نے اجلاس میں ملک کی فارما انڈسٹری کی نمائندگی کی جوکہ وفاقی حکومت کی درآمدی اشیا سے متعلق پالیسی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کو روکنے کے لیے بلایا گیا تھا۔

پی پی ایم اے کے بعض ارکان نے بتایا کہ ادویات کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ادویات سازی کی صنعت خام مال کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا/خام مال کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے سبب فارما انڈسٹری کو شدید دھچکا لگا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایندھن، بجلی، فریٹ چارجز، پیکنگ مٹیریل اور ایکسچینج ریٹ کی قیمت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کے نتیجے میں پیداوار میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

پی پی ایم اے کے عہدیداروں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے خام مال اور دیگر اشیا کی درآمد کے حوالے سے پالیسی وضع کرنے کے بعد سے ملک بھر میں 500 سے زائد زندگی ادویات کی قلت ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں سے کہا تھا کہ وہ ضروری اشیا خصوصاً خام مال کی درآمد کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے پر پابندیاں عائد کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ مایوس کن صورتحال نے غیر ملکی کرنسی بالخصوص ڈالر میں عدم ادائیگی کی وجہ سے پاکستان میں متعدد ادویات کی پیداوار روک دی ہے۔

لہٰذا دوا ساز صنعتوں نے پیداوار بند کر دی کیونکہ وہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے دوسرے ممالک سے خام مال کی خریداری سے قاصر ہیں، نتیجتاً قلت کا شکار ادویات کی تعداد 500 سے بڑھ کر 1300 تک پہنچ گئی۔

پی پی ایم اے کے مرکزی چیئرمین سید فاروق بخاری نے کہا کہ ’ہم نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں واضح طور پر بتایا کہ تقریباً 140 فارماسیوٹیکل فرموں نے ادویات کی پیداوار بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ڈریپ کو 1300 مالیکیولز کی فہرست پیش کی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس پیش رفت کا سب سے پریشان کن حصہ یہ ہے کہ یہ دوائیں دل کی بیماریوں، انتہائی نگہداشت کے یونٹس، مرگی، الرجی، بلڈ پریشر، شوگر، اینٹی بائیوٹک اور بے ہوشی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

سید فاروق بخاری نے کہا کہ ان ادویات کی پورے ملک میں پیداوار اور سپلائی کم ہے، یہاں تک کہ او آر ایس سمیت عام استعمال کی ادویات مارکیٹ میں بہت کم دستیاب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہیپرین ایک جان بچانے والی دوا ہے جس کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی قلت سنگین مسائل کا باعث بنے گی کیونکہ یہ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو صدمے کی جان لیوا حالت میں فوری طور پر دی جاتی ہے۔

سید فاروق بخاری نے کہا کہ ہم نے وزیر خزانہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ یہ ملک کی فارما انڈسٹری کا بحران نہیں بلکہ یہ درحقیقت ایک قومی بحران ہے کیونکہ اس کا شکار لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اور صحت ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ آنے والے روز میں قلت کا شکار ادویات کی تعداد ڈھائی ہزار تک بڑھ سکتی ہے کیونکہ مزید دواساز کمپنیوں نے ادویات کی پیداوار روک دی ہے اور وہ ڈریپ کو خط لکھ کر اس حوالے آگاہ کررہے ہیں۔

پی پی ایم اے کے مرکزی چیئرمین نے کہا کہ دوا سازی کی صنعت نے بارہا وفاقی حکومت اور ڈریپ سے درخواست کی ہے کہ وہ مہنگائی کی موجودہ صورتحال کے مطابق ادویات کی قیمتیں طےکرنے کی اجازت دے کر ٹھوس تدارک کے اقدامات اٹھائیں، اس پر توجہ نہ دی گئی تو دواسازی کی صنعت کا خاتمہ ناگزیر ہوگا۔

ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن پاکستان کی ترجمان نور مہر نے بھی ادویات کی قلت تشویشناک حد تک پہنچنے کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ مریضوں کو ان کی استطاعت کے مطابق محفوظ اور موثر علاج تک رسائی سے انکار انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، اس سنگین صورتحال کی ذمہ دار وفاقی حکومت اور ڈریپ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں