اسکول جانے پر پابندی کے باعث افغان طالبات مدارس کا رخ کرنے لگیں

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2023
ماہرین کا کہنا ہے کہ مدارس بالغان کو فائدہ مند روزگار کے لیے ضروری ہنر فراہم نہیں کرتے— تصویر: اے ایف پی
ماہرین کا کہنا ہے کہ مدارس بالغان کو فائدہ مند روزگار کے لیے ضروری ہنر فراہم نہیں کرتے— تصویر: اے ایف پی

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پورے افغانستان میں اسلامی اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، ثانوی اسکولوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد نوعمر لڑکیاں تیزی سے ان کلاسوں میں شرکت کر رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق حجاب سے اپنے چہرے اور بالوں کو ڈھانپنے والی 16 سالہ فرح نے کہا کہ ’ہم افسردہ تھے کیونکہ ہمیں تعلیم دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد میرے خاندان نے فیصلہ کیا کہ مجھے کم از کم یہاں آنا چاہیے، ہمارے لیے اب یہ مدرسہ ہی ایک جگہ ہے۔

ریاضی اور ادب کے بجائے اب یہ لڑکیاں عربی میں قرآن پاک سیکھنے پر توجہ دے رہی ہیں۔

جو لوگ آیات کی تفسیر سیکھنا چاہتے ہیں وہ الگ سے مطالعہ کرتے ہیں، جس میں ایک استاد اپنی مقامی زبان میں متن کا ترجمہ اور وضاحت کرتا ہے۔

اے ایف پی نے کابل اور جنوبی شہر قندھار میں تین مدارس کا دورہ کیا جہاں علما نے بتایا کہ طالبات کی تعداد گزشتہ سال سے دگنی ہو گئی ہے۔

فرح کے وکیل بننے کی خواہش اس وقت ختم ہو گئی تھی جب طالبان حکام نے لڑکیوں کو ثانوی اسکول جانے سے روک دیا اور مہینوں بعد خواتین کے یونیورسٹی جانے پر پابندی لگا دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر ایک کے خواب بکھر گئے ہیں‘۔

پھر بھی فرح خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین نے انہیں کلاس میں جانے کی اجازت دی تھی۔

طالبان کی حکومت اسلام کی سخت تشریح پر کاربند ہے۔

بعض عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور ان کے مذہبی مشیروں کا اندرونی حلقہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے خلاف ہے۔

ہیبت اللہ نے سیکڑوں نئے مدارس کی تعمیر کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ اپنی اسلامی امارت کی بنیاد شریعت کو قرار دیتے ہیں۔

کابل میں حکام نے لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کے کئی جواز پیش کیے ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیوں کے علیحدہ کلاسز اور اسلامی یونیفارم شامل ہیں۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ آخر کار اسکول دوبارہ کھل جائیں گے۔

بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعطل کے پیچھے تعلیم ہی بنیادی نکتہ ہے، جو خواتین اور لڑکیوں کی آزادیوں کو چھیننے کی مذمت کی ہے۔

امدادی اداروں کے مطابق کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، جو معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جہاں نصف سے زیادہ آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔

مدارس کی تعلیمی قدر شدید بحث کا شکار ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بالغان کو فائدہ مند روزگار کے لیے ضروری ہنر فراہم نہیں کرتے۔

ایک اسکالر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر جدید تعلیم کی ضرورت ایک ترجیح ہے، کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام پیچھے نہ رہ جائے، جدید تعلیم کو چھوڑنا قوم سے غداری کے مترادف ہے۔

کابل کے مضافات میں واقع مدرسے کو دو بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک لڑکیوں کے لیے اور دوسرا لڑکوں کے لیے، پھر بھی کلاسز مختلف اوقات میں منعقد کی جاتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔

کئی لڑکیوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ مدرسے میں جانے سے کچھ حوصلہ اور دوستوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں