امریکی حکومت نے شارٹ ویڈیو سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک کی مالک کمپنی کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اپنے شیئرز فروخت کردے، دوسرے صورت میں ایپلی کیشن پر امریکا میں مستقل بنیادوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

ٹک ٹاک چینی کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ نامی کمپنی کی ملکیت ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر سنگاپور میں ہے، تاہم اس کے دفاتر امریکا سمیت دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔

حالیہ امریکی حکومت سے قبل گزشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی حکومت نے ٹک ٹاک کو فروخت نہ کرنے کی صورت میں اس پر پابندی لگانے کی دھمکی دی تھی اور اس وقت بھی کچھ وقت کے لیے امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

تاہم بعد ازاں امریکی عدالتوں نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے امریکی حکومت کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔

تاہم اب ایک بار پھر ٹک ٹاک اور امریکی حکومت کے درمیان تنازع شروع ہو چکا ہے اور کچھ ہفتے قبل ہی امریکی حکومت نے سرکاری ڈیوائسز میں ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی۔

لیکن اب امریکی حکومت نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے ٹک ٹاک کو فروخت نہ کیے جانے پر اس پر پابندی لگانے کی دھمکی دے دی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جوبائیڈن انتطامیہ نے ٹک ٹاک کو واضح احکامات دیے ہیں کہ وہ اپنی ایپلی کیشن کو فروخت کردے، دوسری صورت میں اس پر امریکا میں پابندی عائد کردی جائے گی۔

حکومت نے ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے حصص فروخت کردے، تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حکومت نے ٹک ٹاک کو امریکی شخص یا ادارے کو ہی فروخت کرنے کی شرط بھی عائد کی ہے یا کمپنی کو کسی بھی ملک کے دوسرے شخص یا ادارے کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔

تاہم امریکی حکومت کے احکامات پر ٹک ٹاک کے بانی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایپلی کیشن کو فروخت کرنے سے بھی امریکی حکومت کے ’قومی سلامتی‘ کے خدشات ختم نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے ’قومی سلامتی‘ کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے امریکی صارفین کے ڈیٹا کو امریکا منتقل کیے جانے کا فیصلہ مددگار ثابت ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں