کثیر الجماعتی کانفرنس کا سندھ کے تحفظات دور نہ کرنے پر مردم شماری نتائج قبول نہ کرنے کا انتباہ

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2023
پی ٹی آئی، جی ڈی اے نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا—فوٹو:فہیم صدیق، وائٹ اسٹار
پی ٹی آئی، جی ڈی اے نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا—فوٹو:فہیم صدیق، وائٹ اسٹار

حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے زیر اہتمام کثیر الجماعتی کانفرنس(اے پی سی) کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگر سندھ کے ’تحفظات‘دور نہ کیے گئے تو ساتویں قومی مردم شماری کے نتائج قبول نہیں کیے جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کانفرنس میں کئی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ آئندہ عام انتخابات چاروں صوبوں میں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کرائے جائیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سندھ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان نے اپنے یوم تاسیس کی ہفتے کے روز ہونے والی تقریب کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام(جے یو آئی ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی)، جماعت اسلامی (جے آئی)، جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی)، اے ڈبلیو پی، اے جے پی اور دیگر جماعتوں نے پیپلزپارٹی کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی۔

الیکٹرونک میڈیا کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر نثار کھوڑو کی تقاریر کے علاوہ تقریب کی براہ راست کی اجازت نہیں تھی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے شرکا کو مردم شماری میں موجود خامیوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق سندھ کی 20 فیصد آبادی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز سے محروم ہے جس کی وجہ سے حکومت سی این آئی سی کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سندھ کو مردم شماری کے اعداد و شمار تک رسائی دی جائے تاکہ سندھ میں رہنے والے ’غیر قانونی غیر ملکیوں‘ کی تعداد کا پتا چل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے وقت میں توسیع کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ کے دیگر تمام مطالبات کو ’جائز‘ قرار دیتے ہوئے تمام متعلقہ حکام کو صوبے کی تجاویز اس میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ وزیر اعظم کی ہدایات پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں