بھارتی سنیما کو دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کہا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بھی اس مؤقف کی ایک حد تک حمایت کرتے ہیں، مگر آج یہ صنعت دیگر فلم انڈسٹریز کی رہنمائی کرنے کے بجائے خود بے سمتی کا شکار نظر آتی ہے۔ ناقدین کے مطابق اس صورت حال کی بنیادی وجہ بی جے پی سرکار کی انتہا پسند اور قوم پرست سوچ ہے جس نے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فلمی صنعت کو بھی اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس کا نتیجہ اب پروپیگنڈا فلمز کی صورت سامنے آرہا ہے۔

گزشتہ دنوں ریلیز ہونے والی ہندی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ نے معاملے کی سنگینی کو مزید عیاں کردیا ہے۔ ’دی کشمیر فائلز‘ کی قوم پرستانہ سوچ کا تسلسل تصور کی جانے والی اس فلم نے ایک جانب جہاں ہندوستانی مسلمانوں کو الزامات کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے وہیں کیرالہ کی مذہبی ہم آہنگی کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

فلم میں اداکارہ ادا شرما نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والی، نرس بننے کی خواہش مند ایک ایسی ہندو لڑکی کا کردار نبھایا ہے جو اب افغانستان کی جیل میں قید ہے اور اپنی دہشت گردوں سے وابستگی کی سنسنی خیز کہانی بیان کررہی ہے۔ یہ فلم ایسی ہندو اور مسیحی لڑکیوں کے گرد گھومتی ہے جنہیں محبت کے جال میں پھنسا کر پہلے اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور بعد ازاں عالمی انتہاپسند تنظیم کا حصہ بناکر افغانستان، شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔

’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے ہدایت کار سدپتو سین کا آغاز ہی سے دعویٰ تھا کہ یہ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ البتہ جس طرح ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر اور ایک مخصوص زاویے سے پیش کیا گیا، اس پر مختلف طبقات کو شدید تحفظات ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ روشن خیال ہندو تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ان واقعات کو غیرحقیقی قرار دیا گیا ہے۔

اسی بنیاد پر جمعیت علما ہند نے بھارتی سپرپم کورٹ میں فلم کی نمائش روکنے کی درخواست دائر کی تھی۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ فلم ساز وضاحت جاری کریں کہ یہ حقیقت کے بجائے فکشن پر مبنی ہے۔ سپریم کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ البتہ وہاں بھی درخواست گزاروں کی شنوائی نہیں ہوئی اور فلم 5 مئی کو ریلیز ہوگئی جس کے بعد تنازع نے مزید شدت اختیار کرلی۔

’لو جہاد‘ جیسے متنازع اور مبہم موضوع کے گرد گھومنے والی سدپتو سین کی اس فلم کا ٹیزر گزشتہ برس نومبر میں ریلیز کیا گیا تھا جس میں یہ سنسنی خیز دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ فلم نہ صرف حقیقی واقعے پر مبنی ہے بلکہ کیرالہ اور اس کے گردو نواح سے تعلق رکھنے والی 32 ہزار معصوم لڑکیاں ’لوجہاد‘ نامی اس ’سازش‘ کا شکار بن کر جنگ زدہ علاقوں میں دفن ہوچکی ہیں۔

اس ٹیزر پر رائے عامہ تقسیم ہوگئی۔ ایک جانب جہاں مسلم مخالف گروہوں کی جانب سے اسے سراہا گیا ہے وہیں مسلمان اور روشن خیال طبقے کی جانب سے 32 ہزار لڑکیوں کی گمشدگی کے دعوے کو گمراہ کن ٹھہراتے ہوئے حقائق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔

جب آزاد مبصرین نے ہدایت کار کے دعوے پر سوال اٹھایا تو ان کی جانب سے کیرالہ کے کمیونسٹ رہنما اور سابق وزیراعلیٰ شنکرن اچتا نندن کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا جو کیرالہ کے اسلامی اسٹیٹ بننے کے خدشے پر مبنی تھا۔ ساتھ ہی ہدایت کار نے سابق وزیراعلیٰ اومین چاندے کے انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والے کیرالہ کی خواتین میں قبول اسلام کے بڑھتے رجحان سے متعلق بیان کو اپنی فلم کی بنیاد کہا ہے۔ البتہ آزاد میڈیا اور فیکٹ چیک کرنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی جانب سے یہ نشان دہی کی گئی ہے کہ مذکورہ بیان میں نہ تو 32 ہزار کی تعداد کا ذکر تھا، نہ ہی ان نومسلم خواتین کی انتہا پسند تنظیموں سے کسی قسم کی وابستگی کا انکشاف کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ فلم ساز دراصل شنکرن اچتا نندن کے کیرالہ کے اسلامی اسٹیٹ بننے کے بیان کو بھی غلط تناظر میں پیش کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب فلم ساز نے 32 ہزار کی متنازع تعداد کو اپنے تخلیقی کام کا موضوع بنایا۔ 2018ء میں اپنی ایک دستاویزی فلم ’ان دی نیم آف لو‘ کے لیے بھی سدپتو سین نے ان ہی بے بنیاد اعدادوشمار کا سہارا لیا تھا۔

اس ٹیرز پر تنقید کرنے والوں نے یہ نشان دہی بھی کی کہ کیرالہ پولیس کے پاس کبھی ان ہزاروں خاتون کی پراسرار گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ ناقدین امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دہشت گردی سے متعلق سال 2020ء کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے بھارتیوں کی کل تعداد 66 بتائی گئی تھی۔ اس رپورٹ کو بعد ازاں ہندوستان ٹائمز سمیت بھارت کے کئی معتبر اخبارات نے بھی شائع کیا تھا۔

اس نوع کے سنجیدہ اعتراضات کو جب کانگریس اور دیگر روشن خیال تنظیموں کا ساتھ ملا تو اس دعوے کا سقم مزید عیاں ہوگیا۔ ناقدین نے سوشل میڈیا سمیت تمام دستیاب فورم پر یہ کیس لڑا۔ دباؤ کے باعث پروڈیوسرز کی جانب سے 25 اپریل 2023ء کو جاری کردہ ٹریلر میں 32 ہزار کی متنازع تعداد کے تذکرے سے اجتناب برتا گیا اور یوٹیوب ڈسکرپشن میں اسے کیرالہ کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والی 3 خواتین کی حقیقی کہانی ٹھہرانے پر اکتفا کیا۔ الغرض فلم ساز اور ہدایت کار 31 ہزار 997 خواتین کی جبراً مذہب تبدیلی، زیادتی اور دھوکے سے اغوا جیسے سنگین الزامات سے پیچھے ہٹ چکے تھے۔ البتہ سدپتو سین کی جانب سے مختلف پلیٹ فارمز پر اس تعداد پر اصرار جاری رکھا گیا۔

ایک جانب تنقید جاری تھی، تو دوسری طرف فلم کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے اپنا وزن فلم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ فلم ریلیز کے بعد ناقدین واضح طور پر دو حصوں میں بٹے نظر آئے۔ بی جے پی کے قریب سمجھے جانے والے مبصرین نے اسے جی کھول کر سراہا، البتہ سنجیدہ مبصرین کی جانب سے اسے کمزور اور بھونڈی کوشش ٹھہرایا گیا۔

ایک جانب دی انڈین ایکسپریس نے اس کی پیش کش اور اداکاری کو ناقص قرار دیا تو وہیں این ڈی ٹی وی نے اس کے اسکرپٹ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ساؤتھ انڈیا جو نسبتا روشن خیال اور معتدل مزاج تصور کیا جاتا ہے، وہاں بھی اس ہندی فلم کی زیادہ پذیرائی نہیں ہوئی۔ تامل ناڈو کے ملٹی پلکسس نے فلم کو متنازع موضوع اور ناظرین کی عدم دلچسپی کے باعث ہٹانے کا اعلان کردیا۔ جنوبی بنگال کی سرکار نے بھی اس پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ میں بھی فلم شدید تنقید کا نشانہ بنی۔ خیال رہے کہ کیرالہ کی سیاسی تاریخ میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کا پلڑا بھاری رہا ہے اور دونوں کی جانب سے مذکورہ فلم کو کیرالہ کے خلاف پروپگینڈا اور ہندوتوا کی ترویج قرار دیا گیا۔

البتہ شمالی بھارت میں، جسے بی جے پی کا اصل ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے، فلم کو شاندار اوپننگ ملی اور فلمی پنڈتوں نے یہ پیش گوئی کردی کہ یہ ’دی کشمیر فائلز‘ کی طرح بلاک بسٹر ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ معمولی بجٹ اور کمزور پروڈکشن کے ساتھ بننے والی یہ فلم محض 3 روز میں 35 کروڑ کا بزنس کرچکی ہے۔

فلم سے جڑی سیاسی اور مذہبی تقسیم اس وقت مزید نمایاں ہوگئی، جب بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی نے اس میں پیش کردہ بیانیہ کو سراہتے ہوئے اسے حقیقت پر مبنی قرار دیا اور اس کی مخالفت پر کانگریس اور دیگر جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یاد رہے کہ ’دی کشمیر فائلز‘ کو بھی بی جے پی کی بھرپور سپورٹ ملی تھی۔

جہاں چند ماہ قبل ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی فلم ’پٹھان‘ کی بے مثال کامیابی کو انتہاپسندوں اور بائیکاٹ گینگ کی ناکامی گردانا جارہا تھا، وہیں ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کی کامیابی یہ اشارہ ہے کہ انتہاپسند اور قوم پرست سوچ ہندی فلم بینوں میں بڑی حد تک سرایت کرچکی ہے۔ اسی سوچ کے تحت ماضی میں علا الدین خلجی اور احمد شاہ ابدالی سمیت مسلم حکمرانوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا اور اسی نظریے کے تحت ٹیپو سلطان کو، جو کل تک ہندوستان میں برٹش سرکار کے خلاف جدوجہد کا استعارہ تھا، ایک جنونی اور ہندو دشمن سلطان کے طور پر پیش کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

سنجیدہ مبصرین کا خیال ہے کہ ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے ذریعے بی جے پی کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں اپنی سرکار بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ 2019ء سے کرناٹک میں بی جے پی کا راج ہے مگر ناقص کارکردگی اور کانگریس کی مقبولیت کے باعث انہیں مشکلات درپیش ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے نفرت کارڈ کھیلا جارہا ہے اور اس میں ’دی کیرالہ اسٹوری‘ ترپ کا پتہ سمجھی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ کرناٹک حجاب تنازع کی وجہ سے ایک عرصے سے خبروں میں ہے۔

چاہے یہ فلمی پتا انتخابی سیاست میں کام آئے یا نہ آئے، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیکولرازم کا پرچار کرنے والا بولی وڈ آج انتہاپسند نظریے کے نرغے میں آچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں