ٹانگیں سب کہتی ہیں

ایک عجیب بات ملاحظہ ہو: نوجوان پاکستانی تیراک انعم باندے نے اولمپکس چار سو میٹر میڈلے کے مقابلوں میں پانچ منٹ چونتیس اعشاریہ چھہ چار سیکنڈ کے وقت کے ساتھہ پاکستان کا نیا قومی ریکارڈ بنایا۔ مگر چونکہ مجموعی طور پر وہ پینتیسویں نمبر پر آئیں لحاظہ اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
اس سے پاکستان کے خراب معیار کا پتا چلتا ہے اور یہ بھی کہ بین الاقوامی سطح پر ٹائمنگز میں کتنی بہتری آرہی ہے۔ اس سے میری مراد پندرہ سالہ انعم پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ اس نے جی جان سے تیراکی کی اور اپنا اور پاکستانی ریکارڈ بہتر کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں مزید بہتری آئے گی۔ بلکہ یہ تو خوشی کا مقام ہے کہ ایک پاکستانی لڑکی نے تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لیا۔
ہر کھیل کی یہی کہانی ہے کہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہمارا معیار تنزلی کا شکار ہے۔ مگر یہ صرف پاکستان نہیں ہے جو بین الاقوامی مقابلوں میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے بلکہ پورا برصغیر تمام کھیلوں میں پیچھے جا رہا ہے سوائے کرکٹ کے۔
درحقیقت، یہ نکتہ بھی زیربحث لایا جاسکتا ہے کہ کرکٹ کے لئے ہمارے جذبہ نے باقی تمام کھیلوں کو پھیکا کردیا ہے۔ کھیلوں پہ مختص کی جانے والی تمام رقوم اور وسائل کرکٹ پر سرف ہوجاتی ہیں اور باصلاحیت نوجوان کھلاڑی کرکٹ اسٹار محض اس لئے بننا چاہتے ہیں کہ یہاں پیسہ ہے۔ یہ سچائی ہندوستان اور سری لنکا پر بھی صادق آتی ہے۔
برصغیر کی جانب سے جسکی مجموعی آبادی تقریبا ڈیڑھ ارب یا مجموعی انسانیت کا ایک چوتھائی ہے، صرف سو مرد اور عورتیں لندن اولمپکس میں حصہ لینے کے لئے بھیجے گئے۔ اس تحریر کے وقت تک صرف ہندوستان وہ واحد جنوبی ایشیائی قوم ہے جس نے ایک تمغہ حاصل کیا تھا۔ ائر رائفل شوٹنگ میں کانسی کا تمغہ۔ ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ایک مرتبہ پھر تمغوں کی دوڑ میں سب سے آخر میں آنے والوں میں سے ہونگے۔
ہماری واحد امید ہاکی سے وابستہ ہے، اور میں خوشی سے غلط ثابت ہونا قبول کرلوں گا مگر یہاں بھی کوئی تمغہ ملنا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ سالہاسال سے کھیل کے معیار میں بہتری آرہی ہے، خاص طور پہ یورپین ممالک میں جبکہ ہم اسی جگہ کھڑے ہیں۔ خودمذمتی طور پہ اس تنزلی کی ایک بڑی وجہ اس کھیل کی میدانی سطح ہے۔ جب تک یہ قدرتی گھاس پہ کھیلی جاتی تھی توگیند کا غیر متوازن اچھال اور چھوٹے پاسز پہ مبنی کھیل نے ہماری دبلی پتلی جسامت کا عیب چھپائے رکھا تھا۔
مگر آسٹروٹرف کے تعارف کی وجہ سے اب یہ کھیل لمبے پاسز اور زیادہ جسمانی قوت کا استمعال کرنے والی یورپین قوموں کیلئے زیادہ موزوں بن چکا ہے۔ اسکے علاوہ یہ غیر قدرتی سطح مہنگی ہونے کے باعث مقامی اسکولوں اور کالجوں کی دسترس سے بھی باہر ہو گئی تھی۔
اسکواش ایک اور ایسا کھیل ہے جس پر ہماری اجارہ داری تھی، ہاشم خان خاندان نے اس پر کئی سال حکمرانی کی۔ مگر اب کافی عرصہ گذر چکا ہے جب کوئی پاکستانی دس ٹاپ کھلاڑیوں کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہو۔ اس کھیل میں بھی پیسہ آنے کی وجہ سے دنیا بھر سے کافی سارے لوگوں نے اسکو پیشہ ورانہ طور پہ اپنالیا ہے۔ اسکواش کورٹس پہ پیسہ نا لگانے یا نا لگا پانے کی وجہ سے ہم بین الاقوامی رینکنگز میں بہت نیچے چلے گئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پی آئی اے، ریلوے اور آرمی جیسے ادارے اپنی ٹیموں پہ پیسہ لگایا کرتے اور انکے کھلاڑی پے رول پہ ہوتے تھے۔ تجربہ کار اہلکار کھلاڑیوں اور قومی مقابلوں میں خاصی دلچسپی لیا کرتے تھے اورپورے ملک سے شائقین کھیل ان سے محضوض ہوا کرتے تھے۔ مگر اب کرکٹ یا شائد تھوڑا بہت ہاکی کے کوئی بھی نتیجوں کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتا۔
ہم اکثر کم وسائل کو خراب کارکردگی کی وجہ بتاکر بہانہ بنا دیتے ہیں، مگر سچائی یہ ہے کہ چالیس برس قبل، جب ہم زیادہ غریب قوم تھے، تب ہم اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی زیادہ بہتر طریقے سے کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
اپنی اوسط درجے کی کارکرگردگی کا رونا روتے ہوئے ہم اکثر ایک اہم نکتہ فراموش کر جاتے ہیں جو ہمارے میدانوں میں خواتین کی غیر موجودگی ہے۔
پاکستان میں ہم خواتین کے حالات سے تکلیف دہ حد تک آگاہ ہیں: زیادہ تر گھرانوں میں کھانے پینے، علاج معالجے اور تعلیم کے حوالے سے لڑکوں کو لڑکیوں پہ فوقیت دی جاتی ہے۔ تقریباً علیحدگی میں ذندگی بسر کرنے کی وجہ سے انکے لئے کھیلوں اور دوسری غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ناممکن ہوتا ہے جبتک انکا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے نہ ہو یا انہوں نے پرائیوٹ اسکولوں سے تعلیم نہ حاصل کی ہو۔
بارڈر کے اس پار بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود ہندوستانی عورت کی حالت جی ٹوئنٹی ممالک میں سب ابتر ہے، سعودی عرب سے بھی زیادہ۔ جب آپ اپنی آدھی آبادی کو ایک طرف اٹھا کے رکھ دیں تو پھر اسکے نتائج سے بھی دلبرداشتہ نہیں ہونا چاھئیے، صرف کھیلوں میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں۔
ایک لمحہ کیلئے اولمپکس کو بھول جائیے۔ فٹبال کے عالمی مقابلوں کو ہی لے لیجئیے، تقریباً پچھلے ساٹھ سالوں میں دنیائے کھیل کے ان سب سے مقبول مقابلوں میں برصغیر کی کوئی بھی ٹیم جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں بڑی تعداد میں اس کھیل کو کھیلے جانے کے باوجود ہم بین الاقوامی سطح پر ایک ٹیم بھی عالمی معیار کے مطابق تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
فٹبال میں خراب کارکردگی پہ میرا ایک مفروضہ یہ تھا کہ دیسیوں کی ٹانگیں پتلی ہوتی ہیں۔ مگروہ تو کینینز اور ایتھوپینز کی بھی ہوتی ہیں اور وہ تو بنا تھکے بھاگتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ ایک عرصے سے انہوں نے لمبی دوڑوں کے مقابلوں میں بڑی تعداد میں تمغے اور انعامات حاصل کر رکھے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹاپ لیول پہ مقابلوں کیلئے ٹیموں کو رسدی سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوچنگ اور ورزش کی سہولیات بھی، اچھے کھانے پینے کیساتھ کیساتھ ، ناگزیر ہیں۔ وہ زمانے لد گئے جب اسکولوں اور کالجوں کے گیمز ٹیچرز عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا کردیا کرتے تھے۔ اب، ٹیکنالوجی اور سازوسامان کارکردگی میں بڑا فرق پیدا کر سکتے ہیں۔
مگر اب بھی حوصلہ افزائی اور تندہی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
چینیوں کی ترقی کی جانب ہی دیکھ لیجئیے۔ انہوں نے بیجنگ اولمپکس میں سب سے زیادہ تمغے حاصل کئے تھے اور شاید اس بار لندن میں بھی یہی کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوجائیں۔ انکے کھلاڑیوں کو بہت جلد منتخب کر لیا جا تا ہے اور اسکے بعد خطیر رقم حاصل کرنے والے کوچز کی مدد سے ایک سخت مشقتی عمل سے گزارا جاتا ہے۔ جو جیتنے والوں کے پوڈیم پہ چڑھ کہ تمغے حاصل کرتے ہیں انہوں نے ایک عرصہ شدید محنت میں گزارا ہوتا ہے۔
پاکستان میں کرکٹرز کے علاوہ باقی تمام کھلاڑیوں کی بہت کم حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس سے بھی کم رہنمائی۔ یہاں تک کہ ایچی سن اور گورنمنٹ کالج بھی کھیلوں کے ستارے پیدا کرنے کی نرسریز نہیں رہیں، جو کسی ذمانے میں ہوا کرتی تھیں۔
پاکستان میں کھیل بھی اسی شرمناک حد تک خراب اسلوب حکمرانی کا شکار بن رہے ہیں جسکا باقی تمام سرگرمیاں بن رہی ہیں، حیرت تو ہندوستان پہ ہے کہ وہ اس کہیں زیادہ بہتر کیوں نہ کرسکا۔ آخر کار اتنی بڑی آبادی اور وسائل کیساتھ یہ امید کی جاتی رہی کہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ہندوستانی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پہ لیجانے کیلئے انکی حاصلہ افزائی کرینگے۔ پر ابتک اس بات کے شواہد نہیں مل سکے ہیں۔
اگلی بار جب آپ دیسیوں کو اولمپکس میں حصہ لیتے دیکھ رہے ہوں توانکی ٹانگوں پہ غور کیجئے گا اور پھر بتائیے گا کہ میں صحیح ہوں کہ غلط۔











لائیو ٹی وی