بشکریہ گوگل میپس --.
بشکریہ گوگل میپس --.

 کراچی میں عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیوں کے تعین کا فیصلہ ایسا معاملہ ہے جس پر الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اکتوبر سن دو ہزار گیارہ میں، کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال پر لیے گئے از خود نوٹس کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نےحلقہ بندیوں کے ازسرِ نو تعین کو مسئلے کا ایک حل بتایا ہے۔

فیصلے کے پیرا گراف ایک سو اکتیس اور ایک سو بتیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے مسئلے کا ایک حل کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا تعین بھی ہے۔

عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی تنہائی کی روک تھام، زمین پر قبضے کی جنگ اور لسانیت کا گھیرا توڑنے کے لیے انتظامی اداروں، جیسا کہ پولیس اسٹیشن، اور زمین وغیرہ کی از سر نو حد بندیوں کی ضرورت ہے، جسے لازماً کیا جانا چاہیے تاکہ نو گو ایریاز اور علاقوں پر قبضے کے دعووں کا خاتمہ ہو اور مختلف نسلی گروہوں کے لوگ باہمی طور پر چین اور سکون سے رہ سکیں۔

عدالت نے فیصلے میں مزید کہا تھا کہ اس تناظر میں صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے، بالخصوص کراچی میں، انتخابی حلقہ بندیوں کا ازسرِ نو تعین کیا جائے تاکہ کراچی کو پُرامن شہر بنایا جاسکے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ اس فیصلے کی روشنی میں انتخابی حلقہ بندیوں کا تعین کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔

یہاں دو باتیں ذہن میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے:

عدالت نے فیصلے میں یہ کہتے ہوئے کہ 'مختلف انتخابی حلقہ بندیوں کا ازسرِ نو تعین کیا جائے' عمل درآمد کے لیے 'متعلقہ قوانین' کا حوالہ دیا ہے اور اب ان قوانین کی روشنی میں اتنا وقت نہیں ہے کہ فیصلے کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کی جاسکیں۔

فیصلے کے اس حصے کی یوں بھی تشریح کی جاسکتی ہے کہ  جب نئی مردم شماری کے نتائج سرکاری طور پر دستیاب ہوں تو پھر حلقہ بندیوں کے تعین کے قانون مجریہ اُنیّس سو چوہتّر کا اطلاق ہوگا جس کے تحت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔

حلقہ بندیوں کے حوالے سے کانسٹی ٹیونسی ایکٹ مجریہ اُنیّسو چوہتّر کہتا ہے کہ آیا جب نئی مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری ہوجائیں یا پھر صوبے کے لیے مختص اسمبلییوں کی نشت میں کوئی ردّ و بدل واقع ہو تو انتخابی حلقہ بندیوں کا ازسرِ نو تعین کرنا ہوگا۔

نئی حلقہ بندیاں سن دو ہزار دو میں، اُنیّسو اٹھانوے کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق کی گئی تھیں۔

علاوہ ازیں، جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کُل نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا تھا، جس کے بعد نئی انتخابی حلقہ بندیوں کی ضرورت تھی۔

کانسٹی ٹیونسی ایکٹ مجریہ اُنیّسو چوہتّر نے شق نمبر نو میں حد بندیوں کے اصول طے کردیے ہیں:

شق نو(۱): عام نشستوں کے لیے، جہاں تک ممکن ہے، جغرافیائی لحاظ سے آبادی کو تقسیم کرکے حلقہ بندیاں کی جائیں گی، جہاں انتظامی یونٹوں کی موجودہ حدود رابطوں اور عوامی سہولت کے لیے سہولت کار کے فراض انجام دیں گی۔

اس ایکٹ کی شق نمبر دو میں 'آبادی' کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ 'آخری بار کی جانے والی مردم شماری کے سرکاری طور پر شائع کردہ نتائج کے مطابق آبادی کا تعین ہوگا۔'

اگرچہ مذکورہ قانون الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ  'ضرورت محسوس کرے  تو' حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست میں ترمیم، تبدیلی یا تصیح کرسکتا ہے۔'

سوال ہے کہ جب نئی مردم شماری کے نتائج سرکاری سطح پر جاری ہی نہیں کیے گئے تو کیا اس کی غیر موجودگی میں انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو دی گئی اجازت فطری طور پر انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؟

یہاں اس بات کا بیان بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کانسٹی ٹیونسی ایکٹ کی شق نمبر دس، اے مذکورہ ایکٹ میں سن اُنیس سو چوراسی میں، ملک پر مارشل لاء دورِ حکومت میں شامل کی گئی تھی۔

اُنیّس سو اٹھانوے کے بعد، سن دو ہزار آٹھ میں نئی مردم شماری کی جانا تھی جو کہ اب  تک نہیں ہوئی اوراس وقت ممکن نہیں کہ ایسا کیا جائے اور پھر اس کے حتمی سرکاری نتائج کی بنیاد پر سن دو ہزار تیرہ کے وسط تک منعقد ہونے والے عام انتخابات کے لیے ازسرِ نو حدبندیاں کی جاسکیں۔ دوسرا یہ کہ اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی کوئی ردّ و بدل نہیں ہوا ہے۔

لہٰذا، اس تناظر میں، ایسی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی حدبندیوں میں کوئی تبدیلی کی جاسکے۔

اگر ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ فیصلے میں حد بندیوں کے لیے کوئی ٹائم فریم دیا گیا ہے تو پھر اسے وضاحت کے لیے معزز عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔

دوسرا یہ کہ اگر اس مرحلے پر الیکشن کمیشن کراچی میں نئی انتخابی حد بندیوں کے تعین کا عمل شروع کرتا ہے تو پھر اسے ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہی عمل کرنا چاہیے۔

اب اگر ملک کے دیگر حصوں میں نئی حد بندیوں کا مطالبہ اس مرحلے پر بنا جواز ہوسکتا ہے تو پھر صرف کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنا سراسر غلط  ہوگا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار دو میں نئی حلقہ بندیوں کے موقع پر اسے بڑی تعداد میں اعتراضات موصول ہوئے تھے۔

اعداد و شمار کے تناسب سے بلوچستان میں فی حلقہ ایک اعشاریہ نو شکایات درج کرائی گئی تھیں۔ صوبے کی قومی اسمبلی کی چودہ اور صوبائی اسمبلیوں کی اکیاون نشستوں کے لیے مجموعی طور پر ستانوے اعتراضات داخل کرائے گئے تھے۔

اگر اس کا موازنہ سندھ سے کیا جائے تو یہاں فی حلقہ ایک اعشاریہ پچیس فیصد اعتراضات داخل کیے گئے۔ مجموعی طور پر صوبے کی قومی اسمبلی کے اکسٹھ اور صوبائی اسمبلی کے ایک سو تیس حلقوں پر دو سو اڑتیس اعتراضات دائر ہوئے تھے۔

خیبر پختونخواہ میں فی حلقہ ایک اعشاریہ تئیس فیصد اعتراضات داخل ہوئے تھے۔ صوبے کی قومی اسمبلی کے لیے پینتیس اور صوبائی اسمبلی کے ننانوے حلقوں کے لیے کُل ایک سو پینسٹھ اعتراضات داخل کیے گئے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو صورتِ حال لگ بھگ بالکل سندھ کے جیسی تھی۔

یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ سندھ میں  نئی حلقہ بندیوں پر اتنی بڑی تعداد میں اعتراضات کا داخل کیا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں اور نہ آئندہ ہوسکتی ہے۔

بلوچستان میں بڑی تعداد میں پشتون آباد ہیں جو طویل عرصے سے شکایت کرتے رہے ہیں کہ مردم شماری میں ان کی تعداد کا درست اندراج نہیں کیا جاتا، جس کی بنا پر انہوں نے اس عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔

کراچی بھی مطالبہ کرسکتا ہے کہ سن اُنیّس سو اٹھانوے کے بعد سے ملک کے بالائی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے کراچی میں آباد ہوئے، لہٰذا آبادی کے بڑھتے تناسب سے ان کی نشستوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

 اب جب کہ نئے عام انتخابات کے انعقاد میں چھ ماہ سے بھی کم وقت باقی بچا ہے، ایسے میں حلقہ بندیوں کے ازسرِ نو تعین سے متعدد مسائل جنم لیں گے، جس سے عین انتخابات کے موقع پر گمبھیر پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

سن دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کے موقع پر بھی الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کی متعدد درخواستیں موصول ہوئی تھیں تاہم اس نے مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیاں نہ کرنے کا قانونی جواز پیش کر کے سب کو نظر انداز کردیا تھا۔

اُس وقت نئی حلقہ بندیوں کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے مردم شماری نہ ہونے کے علاوہ ، الیکشن کمیشن نے آئینِ پاکستان کی شق اکیاون (تین) اور کانسٹی ٹیونسی ایکٹ مجریہ اُنیّسو چوہتّر کی شق سات (دو) کا حوالہ بھی پیش کیا تھا۔

اس وقت بھی الیکشن کمیشن کو کچھ اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ نہایت احترام سے معزز عدالت کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کردے۔

ویسے بھی اس مرحلے پر، ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر کام کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔

اس وقت الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی ذمہ داری غلطیوں سے پاک ووٹرز لسٹوں کی تیاری اور پھر ایک عام پاکستانی شہری کو اس بات کی ضمانت فراہم کرنا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں، بنا کسی جبر و زیادتی کے اپنی رائے دینے کا حق، آزادانہ طور پر استعمال کرسکے۔

الکشن کمیشن کو انفرادی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر بھی بے شمار ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ جن کے مطابق ڈور۔ ٹو۔ ڈور تصدیق کے ناقص نظام کے باعث ووٹرز لسٹ میں شامل ان کے اندراج کو کراچی کے بجائے، سندھ سے باہر ان کے مستقل رہائشی پتوں پر منتقل کردیا گیا ہے حالانکہ وہ برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔

الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ان ووٹرز تک پہنچے، جن تک وہ پہلے نہیں پہنچ سکا اور ووٹ دینے کے مقام کے لیے ان کی ترجیح معلوم کرے۔

پانچ دسمبر، سن دو ہزار بارہ کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں انتخابی فہرستوں کے حوالے سے واضح ہدایت دی تھی کہ ووٹرز کی تصدیق کے لیے ڈور۔ ٹو۔ ڈور تصدیقی عمل شروع کرایا جائے تاکہ یہ بات یقینی ہوسکے کہ کوئی بھی ووٹر اپنے جائز حق کو استعمال کرنے سے محروم نہیں رہ سکے گا۔

یہ الیکشن کمیشن کے کندھوں پر عائد وہ بھاری ذمہ داری ہے جسے نبھانے میں وہ ایک مرتبہ ناکام ہوچکا مگر اس بار ناکامی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ تصدیقی عمل کو فول پروف بنائے تاکہ صرف اہل ووٹرز کو ہی ووٹ کا حق مل سکے۔

شفاف انتخابات اور درست ووٹرز کی تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن ان کے انگوٹھے کا نشان لے سکتا ہے یا پھر ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے کیمرا سے لی گئی تصویر کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس جانب کمیشن کو سنجیدہ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

اس بات کے بھی خدشات موجود ہیں کہ مسلح گروہ ووٹرز کو کسی خٓاص جماعت یا پھر کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے پر بھی مجبور کرسکتے ہیں۔

اس لیےضروری ہے کہ ووٹرز کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مسلح افواج کی خدمات حاصل کی جائیں جیسا کہ بعض سیاسی جماعتیں بھی درخواست کرچکی ہیں۔ ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن میرٹ پر سنجیدگی سے اس جانب غور کرے۔

یہ وہ چند نہایت سنجیدہ نوعیت کے معاملات ہیں کہ جن پر، الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری سے پہلے صرف کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرانے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  


مضمون نگار پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ ہیں۔

ترجمہ: مختار آزاد

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں