عام طور پر بڑھک تو یہی ماری جاتی ہے کہ افغانستان اور قبائلی علاقے یعنی فاٹا کبھی کسی کے زیر تسلط نہیں رہے مگر تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد اس تھیوری کو بڑی مہارت سے بوجوہ پھیلایا گیا۔

انیسویں صدی سے جاری برطانیہ-روس سرد جنگ (دی گریٹ گیم) ہو یا پھر بیسویں صدی کی امریکہ-روس سرد جنگ، اس تھیوری کو پھیلانے والوں میں باہر والے، قوم پرست اور جہادی سبھی پیش پیش رہے۔

کابل مغلوں کا اک صوبہ رہا اور کنڑ، باجوڑ اور خیبر کے خان، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے “لہور دربار” سے نا صرف تعلقات رکھتے تھے بلکہ مراعات بھی لیتے رہے اور باج (ٹیکس) بھی دیتے رہے، یہ کہانی قیام پاکستان سے محض 107 سال پرانی ہی ہے۔ اس سے بھی پہلے سکندر اعظم اور نادر شاہ سرزمین افغانستان کو جی بھر کے روند چکے تھے جو سب تاریخ کا حصّہ ہے.

اس وقت ان تین سالوں کا ذکر مقصود ہے جب کابل و قندھار انگریزی فوجوں کی پریڈ دیکھتے رہے تھے۔ یہ 1839 سے 1842 کا زمانہ تھا کہ جب انگریزوں نے احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع کی حمایت کا ارادہ کیا اور اسے کابل کے تخت پر بٹھانے کے لیے فوجوں کا رخ کابل و قندھار کی طرف کر دیا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال یعنی 27 جون 1839 کے دو ماہ بعد ہی انگریز کابل پر شاہ شجاع کو بٹھا چکے تھے جبکہ کابل کا حکمران دوست محمد خان بارک ذئی بامیان کے راستے پہلے بخارا گیا اور جب وہاں مدد نہ ملی تو پھر پنجاب سے ہوتا ہوا لدھیانہ انہی انگریزوں کے پاس پناہ گزین ہوا جنہوں نے اس کی حکومت ختم کی تھی۔

تاریخ میں اسے “پہلی انگریز-افغان جنگ“ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر انگریزوں کے ہمراہ اسی جنگ میں بے شمار افغاں سردار اور قبائلی علاقوں کے “خان” تھے لہٰذا اسے اینگلو افغان جنگ کہنا بھی مزید غلط فہمیوں کو جنم دینے کا ‘بہانہ’ ہی لگتا ہے۔

اس جنگ سے قبل انگریزوں نے ایک ‘سہ ملکی معاہدہ’ کیا تھا جس میں لہور دربار، شاہ شجاع اور کمپنی بہادر شامل تھے۔ شاہ شجاع 1802 سے 1809 تک افغانستان کا پادشاہ رہا تھا اور اس کے بعد سے وہ پنجابی سکھوں اور انگریزوں کی مدد سے کابل کا تخت دوبارہ حاصل کرنے میں جتا رہا۔

1809 سے مہاراجہ کئی بار انگریزوں کی فوج کو افغانستان پر حملہ کے لیے پنجاب سے گذرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا رہا تھا۔ مگر اس دوران افغانستان کے بادشاہ ‘لہور دربار’ سے تعلقات بہتر بنانے میں کبھی سنجیدہ نہ ہوئے بلکہ پشاور اور ملحقہ علاقوں پر قبضے کے بہانے تراشتے رہے۔ پشاور میں دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد خان حکمران تھا مگر وہ بھی ‘لہور دربار’ کے ساتھ تھا۔

1839 کے وسط میں کلکتہ اور بمبئی سے انگریز فوج بمعہ رائل بنگال آرمی، سندھ کی طرف بھیجی گئی جسے سندھ کے تالپوروں اور قلات کے خان نے مدد فراہم کی۔ شاہ شجاع سندھ میں ان کا منتظر تھا اور یہ جنگی قافلہ قندھار کو چل دیا۔ تاریخ اسے ‘فوج سندھ’ کے نام سے یاد کرتی ہے۔

دوسری طرف وائسرائے آک لینڈ (ابھی تک پنجاب و کشمیر پر قبضہ نہیں ہوا تھا اس لیے یہ صاحب وائسرائے ہند کی بجائے سرکاری طور پر “وائسرائے آف بنگال” ہی کہلاتے تھے) شاہ شجاع کے بیٹے تیمور شاہ کو لے کر لاہور سے کابل کی طرف روانہ ہوئے۔

پشاور سے قبائلی علاقہ تک بہت سے پختون اس میں شامل ہوئے۔ مہاراجہ نے معاہدہ میں طے کروا لیا تھا کہ انگریزوں کو “لہور دربار” عسکری مدد فراہم نہیں کرے گا اور شاہ شجاع کابل کے تخت پر بیٹھنے کے بعد فاٹا تک “لہور دربار” کی عملداری تسلیم کر لے گا۔

انگریزوں سے یہ بھی تسلیم کروایا گیا تھا کہ انگریزی لشکر کابل جاتے یا واپس آتے ہوے لہور دربار کے علاقوں میں کسی قسم کی قتل و غارت گری یا لوٹ مار نہیں کریں گے۔

مشہور زمانہ دلی کالج میں زیرتعلیم شہامت علی وہ طالب علم تھا جو بطور فارسی مترجم اس مہم میں وائسرائے کے ہمراہ تھا۔ اس کی کتاب “سکھ اور افغان” (انگریزی) میں اس جنگ کی تفصیلات درج ہیں۔ کنگھم، سٹین بیچ، موہن لال کشمیری اور دیبی پرشاد نے بھی اس واقعہ کی تفصیلات اپنی کتب میں درج کی ہیں۔ موہن لال کشمیری تو شہامت علی کا کلاس فیلو بھی تھا۔ دلی کالج سے ایسے نوجوان طلباء کو انگریزی سفارتی مشنوں کے لیے چنا جاتا تھا جو فارسی اور انگریزی میں مہارتیں رکھتے تھے۔

شاہ شجاع کو انگریزی مدد سے کابل کے تخت پر تو بٹھا دیا گیا اور افغانستان 1842 تک انگریزوں کے زیرتسلط بھی رہا مگر اس دوران دونوں “لہور دربار” کے تحفظات کو بھول گئے۔ دیبی پرشاد نے 1850 میں تاریخ پنجاب لکھی اور اس میں لکھا کہ 1841 سے دوست محمد خان کے حواریوں کو اٹک اور پنڈی میں پناہ گاہیں مل چکی تھیں اور اب انہوں نے پنجاب میں بیٹھ کر شاہ شجاع کو ہتھل کرنا شروع کر دیا۔

انگریزی فوج کو جب بلوچستان سے افغانستان جانا پڑا تھا تو اس کا بہت نقصان ہوا تھا اور اب کابل میں حکومت کو برقرار رکھنے میں بھی وہ اس ہی لیے ناکام تھے کہ “لہور دربار” ان کے ساتھ نہیں تھا۔

بس تین سال میں انگریزی فوج کا جو نقصان ہوا تو اسے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اب انہوں نے لدھیانہ مقیم دوست محمد خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ایک ‘غیرتمند اچھے بادشاہ’ کی طرح دوست محمد خان پنجاب آۓ اور پھر یہاں سے 1843 میں دوبارہ کابل کے تخت پر جا بیٹے۔

اس کہانی میں کئی اہم سبق ہیں اور کچھ ایسے زمینی حقائق بھی جن کو سمجھنا آج ہم سب کے لیے ضروری ہے۔

پنجاب پر 1849 میں قبضہ کے بعد جب انگریزوں نے یہاں سے فوج بھرتی کرنی تھی تو پنجابیوں، پٹھانوں کو “مارشل ریس” یعنی جنگجو نسل قرار دیا گیا۔ ایسے ہی 1894 میں ڈیورینڈ لائن بنانے کے بعد جب قبائلی علاقہ کو سرد جنگی پالیسی کے تحت بطور “بفر زون” استعمال کرنا تھا تو یہ تھیوری پھیلا دی گئی کہ اس علاقہ پر تو کبھی کوئی قابض نہیں ہوا۔

تفاخر اور تعصب کو استعمال کرنا انھیں آتا بھی خوب ہے اور ہم ہیں کہ آج تک اسی تفاخر اور تعصب کو گلے لگائے بیٹھے ہیں۔ 2014 کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اس تعصب و تفاخر سے پرے رہ کر سوچ بچار کی جائے تو ہم خطہ کو امن و استحکام کی راہ پر ڈالنے کی راہ دوبارہ دریافت کر سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں