ایک الگ سا بچپن

21 نومبر 2013
فائل فوٹو۔۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔۔

میرے ایک دوست ہیں جو اپنے بڑے بیٹے کی وجہ سے پریشان ہیں جو ابھی تیسرے گریڈ میں ہے- وہ زیادہ وقت باہر کھیل میں گزارتا ہے، کمپیوٹر پر گیمز کھیلتا رہتا ہے، ٹیلیویژن دیکھنے میں وقت ضائع کرتا ہے، اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ ادھر اُدھر کی کتابیں پڑھتا رہتا ہے- وہ ان سب چیزوں پر پابندی لگا کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی پڑھائی پر زیادہ دھیان دے تاکہ کلاس میں اس کی کارکردگی بہتر ہو- وہ تھوڑا سا اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف سے بھی پریشان ہیں جس کی وجہ بھی تقریباً وہی ہے حالانکہ وہ ابھی پہلے ہی گریڈ میں ہے-

جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ کیا دن میں ایک گھنٹہ پڑھائی کیلئے کافی نہیں ہے تاکہ دوسری تخلیقی سرگرمیوں میں صرف کرنے کیلئے بھی بچوں کے پاس کچھ وقت ہو تو انہوں نے کہا کہ کلاس میں مقابلہ بہت سخت ہے اور اسکول کے اوقات کے بعد صرف ایک گھنٹہ پڑھائی بالکل کافی نہیں — تیسرے گریڈ کے ایک طالب علم کیلئے-

یہی جب بچہ آٹھویں گریڈ میں پہنچے گا تب کیا ہوگا؟

کیا اسکول سے واپس آکر وہ سارا دن رات کو سونے سے پہلے تک ٹیوشن اور گھر پر پڑھائی میں گزاریگا؟ یہ خوشیوں سے بھرا بچپن تو نہیں لگتا چاہے اسکا مقصد بچے کو آئندہ زندگی کے لئے تیار کرنا ہو-

جب میں اپنے اسکول کے زمانے کو یاد کرتا ہوں اور یقیناً یہ کافی پرانی بات ہے، مجھے یاد آتا ہے کہ ہم لوگ بمشکل ایک گھنٹہ پڑھائی میں صرف کیا کرتے تھے-

عموماً ہم لوگوں کو ریاضی یا/اور سائینس کا ہوم ورک ملا کرتا تھا، اور کبھی انگلش اور اردو کا، اور یہ پورا گھنٹہ ہم اس اسائینمنٹ کو کرنے میں لگاتے تھے-

ہم یہ سارا کام جلدی جلدی ختم کر لیتے تھے تاکہ جلد چھٹی ہو جائے- دن کا باقی حصہ ہم محلے میں کرکٹ یا ہاکی کھیل کر گزار دیتے تھے، یا سائیکل چلاتے تھے یا ٹی وی وغیرہ دیکھتے تھے(شروع میں تو صرف پاکستان ٹیلی وژن تھا بعد میں انڈین ٹی وی بھی آگیا تھا)، اور پھر کزنز اور دوستوں وغیرہ کے ساتھ گھومنا پھرنا- میں اپنے بچپن کے ان دنوں کو بہت چاہت سے یاد کرتا ہوں-

ہاں امتحانوں کے زمانے میں یقیناً ہمارا وقت کتابوں کے ساتھ زیادہ گزرتا تھا، خاص طور سے زیادہ ضروری امتحانوں کے موقعوں پر۔ لیکن اس کے علاوہ باقی وقت ہم لوگ خاصے آرام سے ہوتے تھے-

ہاں البتہ او-لیول کے فائنل سال اور اے لیول کے دو سالوں میں پڑھائی کا زیادہ دباؤ تھا لیکن وہ تو متوقع تھا- کیا اس موجودہ نسل کے بچے بہتر ہیں یا ان کی کارکردگی ان سے پہلے کے لوگوں کے مقابلے میں بہتر ہے، اگرچہ کہ میں یہی امید کرتا ہوں، لیکن اس بات میں مجھے شبہہ ہے-

یہ صحیح ہے کہ کافی تبدیلی آئی ہے، اب ہمارے پاس ویڈیو گیمز ہیں، کمپیوٹر آگیا ہے، سو سے زیادہ ٹی وی چینلز انتخاب کرنے کیلئے ہیں- بہت سارے علاقوں میں محلے اتنے زیادہ محفوظ نہیں رہے، معاشرے میں تشدد کا بہت زیادہ رواج ہوگیا ہے اور ہر دن اس میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے-

بچوں کا گھروں سے باہر جانا، محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، سڑکوں پر کھیلنا یا محلے کے کھیل کے میدانوں میں کوئی کھیل کھیلنا، بائیسکل وغیرہ چلانا بھی خاصا مشکل ہوگیا ہے- لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ فرصت کے اوقات اور تفریحی مشاغل کے ساتھ تخلیقی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، اسکول کی کتابوں اور تعلیمی کاموں پر اس کا اتنا اثر نہیں ہوا ہے-

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں یونیورسٹی کے انڈر گریجوئیٹس کو پڑھاتا ہوں خصوصاً یونیورسٹی کے سال اول کے طالب علم، تو مجھے ان تبدیلیوں کے کچھ اثرات نظر آتے ہیں-

اب ‘اے’ اور ‘او’ لیول کے زیادہ بچے نظرآتے ہیں اور ان کے گریڈ بھی بہتر ہوتے ہیں۔ لیکن اب وہ زیادہ لئے دئے رہتے ہیں، سیدھے سادے سے لگتے ہیں، دوستیاں کرنے اور باہم ربط ضبط کا انہیں اتنا تجربہ نہیں ہوتا، اتنے زیادہ تیز طرار بھی نہیں ہوتے اور عموماً ان میں تجسّس کی کمی کے ساتھ حوصلے کی بھی کمی ہوتی ہے-

کیا یہ ساری باتیں ان تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں جو بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ہم نے اپنا رکھی ہیں؟

کبھی کبھی مجھے ان تبدیلیوں کا اثر ان میں نظر آتا ہے- وہ جسمانی طور پر بھی اپنے آپ سے بہت زیادہ مطمئن نہیں لگتے۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں جیسے ان کومحنت کی عادت نہیں-

یقیناً یہ باتیں تمام نوجوانوں کے اوپر پوری نہیں اترتیں، لیکن میں ایک عمومی رجحان کی بات کررہا ہوں۔ جن لوگوں کو کھیلوں وغیرہ میں دلچسپی ہوتی ہے یا دوسری جسمانی محنت والے کاموں میں حصہ لیتے ہیں ان میں اس طرح کی کمزوری نہیں ہوتی-

مجھے چند سال پہلے ایک غیر ملکی یونیورسٹی میں پڑھانے کا بھی موقع ملا اور وہاں کے انڈر گریجوئیٹس اور پاکستانی انڈر گریجوئیٹس کے درمیان واضح فرق یہی ہے- وہاں کے 18 سے 19 سال کی عمر کے طالب علم کئی سال پہلے سے اپنی ذمہ داری خود ہی اٹھالیتے ہیں، کہیں نہ کہیں کام کرنے کا ان کو تجربہ ہوتا ہے –چاہے پارٹ ٹائم– یا گرمیوں کی چھٹیوں میں مختلف نوعیت کے کام، اپنے بینک اکاوُنٹ اور اپنے پیسوں کے معاملات کی دیکھ بھال خود ہی کرتے ہیں- چاہے ان کے والدین اس وقت ان کی پڑھائی کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہوں-

وہ لوگ بھی جن کا تعلق دولت مند گھرانوں سے ہے ان کے پاس بھی اس قسم کا تجربہ ہوتا ہے- اس بات سے ان کی سیکھنے کی لگن کا پتہ لگتا ہے اور ان میں خود اعتمادی بھی آتی ہے- اور زندگی کے طویل المدت اور درمیانہ منصوبوں اور مقاصد کا ادراک بھی ہوتا ہے-

اس کے برعکس پاکستان میں 18 سے 19 سال کے جن لڑکوں کو میں پڑھاتا ہوں، ان لوگوں کے مقابلے میں انھیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ یونیورسٹی میں کیوں ہیں، زندگی سے وہ کیا چاہتے ہیں اور وہ خود کیا بننا چاہتے ہیں-

میں یہاں خصوصی طور پر کام کے حوالے سے مقاصد کے بارے میں نہیں بات کررہا ہوں کیونکہ عام طور سے پاکستان میں انڈر گریجوئیٹس کبھی ایک چیز یا دوسری چیز کا تجربہ کرتے رہتے ہیں، مگر اس تجربہ کیلئے بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ کہاں اور کیسے یہ تجربہ کیا جائے- اور یہی سمجھ ہے جس کی یہاں کمی ہے-

ہمیں جس بات کی اس وقت بہت زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی پرورش میں ایک توازن کا رویہ اختیار کریں، انہیں تحفظ اور مناسب نگہداشت فراہم کریں- لیکن صحیح قسم کی نگہداشت اور تحفظ کا مطلب زندگی کی حقیقتوں کا ادراک اور توقعات ہوتا ہے-

اسکول کا کام بہت اہم ہوتا ہے لیکن زندگی کی کامیابیوں کے راستے کا یہ محض ایک عنصر ہے۔ باہمی روابط اور معاشرتی میل جول، بہتر خود شناسی اور جذباتی پختگی، جسمانی تندرستی اور شہری تیزی اور طراری اور اسی طرح کی کچھ اور باتیں ہیں جو اہم ہوتی ہیں، اور والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ جب ان کے بچے بڑے ہو رہے ہوں تو وہ ان سب چیزوں سے لیس ہوں-

ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں