امتحان یا وبال؟

26 نومبر 2013
السٹریشن۔۔۔۔
السٹریشن۔۔۔۔

میرے ایک کولیگ کا بیٹا اس سال نویں جماعت کے بورڈ کے امتحان میں بیٹھا، نتیجہ آیا تو وہ سکتے میں آگیا- اس کا خیال تھا کہ جتنے اس کے مارکس آۓ ہیں اس لحاظ سے اس کا پرچہ بہت بہتر ہوا تھا-

کم از کم تین پرچوں میں اسے یقین تھا کہ اسے دس مارکس مزید ملنے چاہیے تھے- کالجوں میں داخلے کے لئے جو مقابلے کا رجحان رائج ہے اس لحاظ سے میٹرک کے امتحانات میں تیس مارکس بہت معانی رکھتے ہیں-

بچہ اپنا ریزلٹ دیکھ کر پریشان اور افسردہ ہو گیا تھا- اس کا گزشتہ تعلیمی ریکارڈ جو کہ اسکول میں ہونے والے امتحانات پر مشتمل تھا وہ کامیابی کی اعلیٰ سطح کی نشاندہی کررہا تھا- وہ اپنی کلاس میں ٹاپ پوزیشن پر تھا اور تمام مضامین میں اچھی کارکردگی دکھا رہا تھا- جیسا کہ اسکول کا اپنا تعلیمی معیار کافی اچھا تھا، وہاں ناصرف امتحانات پر نظر رکھی جاتی بلکہ طالب علم کو امتحان دینے کی تربیت بھی دی جاتی تھی، چناچہ بچے اور اس کے اساتذہ کی توقعات کافی زیادہ تھیں-

وہ اس حد تک پریشان ہو گیا کہ اپنے والد سے گریڈ کی جانچ کروانے کے لئے اجازت طلب کرنے لگا- بیسک فیس کے علاوہ آپ کو ہر پرچے کے لئے اضافی سات روپے ادا کرنے پڑتے ہیں- اس کے علاوہ یہ بھی کہ آپ صرف تین پرچے دیکھ سکتے ہیں- ایک متوسط آمدنی والے شخص کے نزدیک امتحانی پرچوں پر فقط ایک نظر ڈالنے کے لئے دو ہزار سے تئیس سو روپے تک خرچ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہے- باپ کا خیال تھا کہ شاید اس طرح مارکس بڑھنے کا چانس ہو لیکن سب سے بڑھ کر ان کے نزدیک بچے کی تشویش سے نمٹنے کا بہتر طریقہ تھا-

لیکن یہاں پنہنچ کر معاملات عجیب ہو گۓ- انہوں نے جانچ کے لئے درخواست دی، پیسے جمع کرواۓ اور بلآخر انہیں پرچے دیکھنے کی تاریخ مل گئی- والد نے ایک دن درخواست جمع کروانے کے لئے چھٹی لی اور پھر ایک بار اور اپنے بیٹے کے ساتھ بورڈ آفس جانے کے لئے چھٹی لی، کیوں کہ بچہ چودہ سال کے اس پاس ہی ہے اور وہ خود اکیلا نہیں جا سکتا- بورڈ آفس پنہچنے پر والد کو بتایا گیا کہ صرف بچہ بلڈنگ میں داخل ہو سکتا ہے، اور صرف وہی اپنے پرچے دیکھ سکتا ہے- وہ اندر گیا اور تیس منٹ بعد باہر آیا، اب وہ پہلے سے بھی زیادہ افسردہ نظر آرہا تھا-

اس نے بتایا کہ جو شخص اسے پرچوں کی جانچ کروا رہا تھا اسے ان مضامین کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی- جب لڑکے نے ان جگہوں کی نشاندہی کی جہاں اس نے جواب صحیح دیے تھے لیکن اسے کم نمبر دیے گۓ، جہاں درست جواب کو غلط جواب قرار دیا گیا تھا، یا ان جگہوں پر جہاں سرے سے مارکس دیے ہی نہیں دیے گے تھے، تو وہ شخص یہی کہتا رہا کہ آپ اس پر اعتراض نہیں کر سکتے- ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت آپ کو اعتراض کا حق نہیں ہے-

بچے نے تینوں پیپر دیکھے اور اس کا شک صحیح ثابت ہوا کہ اسے غلط مارکس دیے گۓ ہیں، لیکن اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ بورڈ کا ملازم اس حوالے سے کچھ بھی کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں- آخر میں اسے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا-

کیا پرچوں کی جانچ کے عمل کے دوران ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کو بنا کسی بالغ ساتھی کی موجودگی کے پرچے دکھانے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ کیا ایسے کسی جانچ کے عمل کا کوئی سر پیر بنتا ہے جس میں متعلقہ مضمون کا کوئی ماہر موجود ہی نہ ہو جو بچے/بچی کے خدشات پر اپنی راۓ دے سکے؟ اور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک نوعمر بچے کو سنانا اس عمل میں کس طرح کارگر ہو سکتا ہے؟

اس تجربے کے بعد، باپ اپنے بیٹے کو اس پورے عمل میں دو ہزار روپے اور دو دن کی چھٹی ضائع ہونے پر ڈانٹتا رہا- دوسرے، باپ بیٹا دونوں کو اب اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ گریڈنگ کا نظام غیرمنصفانہ ہے اور نظر ثانی کا عمل صرف طاقت وروں اور امیروں کے لئے ہے- تب سے، باپ اپنے بیٹے کے دماغ میں یہی بٹھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ یہ تسلیم کرلے کہ غریب کا بیٹا غریب ہی ہوتا ہے اور اسے جو کچھ ملے صبر شکر کے ساتھ قبول کر لے، اچھے کالجوں کو بھول جاۓ اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنی خواہشات کو ایڈجسٹ کرلے-

باپ اپنے بیٹے کو جتنے اچھے اسکول میں پڑھانے کا متحمل ہو سکتا تھا اس نے وہ کیا، اس کے باوجود انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا- کیا ایک بچے کی ہمّت ٹوٹ جانے سے زیادہ کوئی دل شکستہ منظر ہو سکتا ہے؟

اس کے بعد، باپ نے جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات بورڈ کے چیئر پرسن کو ای میل کیں- اس بات کو کئی ہفتے گزر گۓ اور دو مرتبہ یاد دہانی کے باوجود میرے کولیگ کو خاطر خواہ جواب نہیں ملا-

میرا کولیگ ہی واحد شخص نہیں جسے اس طرح کے تجربے سے گزرنا پڑا- کئی والدین اسی طرح کی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں- ایسے ہی ایک واقعہ، جس میں والدین نے دوبارہ اپنی بیٹی کی طرف سے تین پرچوں پر نظر ثانی کے لئے درخواست جمع کروائی تو انہیں ایک ماہ بعد کی تاریخ دی گئی- امتحانات کو گزرے پہلے ہی تین چار ماہ ہو چکے تھے- اگر چھ ماہ تک نظر ثانی نہیں کرنے دی جاتی تو مطلب صاف ہے کہ ان کا ارادہ نظر ثانی کروانے کا ہے ہی نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ میٹرکیولیشن کے دوسرے سال کی تیاری شروع کر دے-

کیا بورڈ والے نظر ثانی کے عمل سے صرف پیسا کما رہے ہیں اور یہ پورا عمل فقط ذمہ داری کا تاثر دے کر سوسائٹی اور والدین کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لئے ہے- نظر ثانی کا جو تجربہ ان والدین کو حاصل ہوا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے- نتائج تیار کرنے کا عمل کتنا درست ہے؟ شاید بورڈ کو گریڈنگ کے عمل کا آزاد تعین کروانا چاہیے، اگر بہتری کی ضرورت ہے تو وہ کی جاۓ اور اسی کے مطابق نظر ثانی کا عمل تیار کیا جاۓ-

اس کی اہمیت کے پیش نظر اس مسئلہ کے لئے ایک منظم طریقہ کار وقت کی ضرورت ہے-

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں