تحفہ یا بھیانک خواب؟

29 نومبر 2013
فائل فوٹو  --.
فائل فوٹو --.

یوسف اور اس کی بیوی کو کم سے کم ایک بیٹا چاہئے تھا، اگر دو ہوجاتے تو اور بہتر تھا، اب ان کے پاس دو ہیں، لیکن اس کے ساتھ چار لڑکیاں بھی ہیں جن میں سے ایک معذور ہے۔

یوسف پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور ہے- اس کی تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ وہ دس آدمیوں (اس کے بوڑھے والدین کو ملا کر) کو ایک بہتر معیار زندگی کی سہولتیں فراہم کرسکے- وہ اپنے خاندان کا اکیلا کمانے والا فرد ہے- اسے کافی محنت کرنی پڑتی ہے، اور جب کبھی موقع ملتا ہے، دو جگہوں پر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ کچھ زیادہ کمانے کا موقع مل جائے- اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی وہ پریشان، تھکا ہارا اور تقریباً ہمیشہ قرضوں ہی میں جکڑا رہتا ہے-

یوسف اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لئے اپنی پسند و ناپسند کیلئے اسے اپنے اوپر سخت پابندیاں لگانا پڑتی ہیں- وہ اپنے بڑے بیٹے کو اپنی حیثیت کے مطابق بہترین اسکول میں بھیجتا ہے، ایک کم فیس والا پرائیویٹ اسکول جو اپنے آپ کو انگلش میڈیم اسکول کہتا ہے-

اپنی تین بچیوں کو وہ گورنمنٹ اسکول میں بھیجتا ہے اور چوتھی بچی جو معذور ہے اسکول نہیں جاتی- دوسرا بچہ ابھی اسکول کے لئے بہت چھوٹا ہے- یوسف کو پتہ ہے کہ وہ اس کو اس پرائیویٹ اسکول میں نہیں بھیج سکتا جب تک کہ اس کی آمدنی میں پانچ سوروپیہ مہینہ کا اضافہ نہ ہوجائے-

اگرچہ کہ یوسف (اور اس کی بیوی) کیلئے اس بات کی وضاحت کرنا کہ ان کو بیٹا کیوں چاہئے تھا مشکل ہے، لیکن وہ پورے یقین سے یہ سمجھتا ہے کہ لڑکا خاندان کا نام چلانے کیلئے بہت ضروری ہے اور بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے- اس کا یہ خیال صحیح ہے یا نہیں لیکن اسے یقین ہے کہ اپنی آمدنی کا اچھی طرح اندازہ ہونے کے باوجود ان کے چھ بچے بہرحال ہوتے-

پانچ نیم خواندہ بچے اورایک غیرتعلیم یافتہ بچی- کیا یوسف اوراس کی بیوی کا انتخاب صحیح ہے؟ جواب چاہے کچھ بھی ہو، اس نے یقیناً معاشرے پر ذمہ داری کا ایک بوجھ ڈال دیا ہے- اگر یہ بچے غیرتعلیم یافتہ رہتے ہیں تو معاشرے کو اپنے پاس سے کچھ نہیں دے سکتے جو آج کے پاکستان میں پچھلے چند سالوں سے آبادی میں اضافے کے فائدے کے بارے میں لوگوں کی سوچ ہے-

اگر یوسف اور اسکی بیوی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے ہیں، تو معاشرے کو اپنے وسائل میں سے ان کیلئے حصہ دینا پڑیگا؟ اس وقت، اندازوں کے مطابق دو کروڑ سے زیادہ اسکول جانے والی عمرکے بچے موجود ہیں جو اسکول نہیں جا رہے ہیں- ظاہر ہے کہ معاشرہ ان بچوں کو -- جنہیں ان کے والدین تعلیم نہیں دلارہے -- تعلیم فراہم کرنے کے وسائل مہیا کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار صحیح طریقے سے نہیں ادا کررہا ہیں-

سکینہ جو تین گھروں میں کام کرکے ایک مہینہ میں تقریباً 9000 روپیہ کما لیتی ہے، اس کے آٹھ بچے ہیں، وہ صرف دو بچے چاہتی تھی، لیکن اس کا میاں جو نشے کا عادی اور بیکار ہے مانع حمل دوائیں نہیں لینا چاہتا تھا- اور بچوں کی تعداد کی اس کو پرواہ نہیں تھی جس کے نتیجے میں سکینہ آٹھ مرتبہ سے زیادہ حاملہ ہوئی اور نتیجتاً آٹھ زندہ بچے-

وہ دس گھنٹے روز ہفتے کے چھ دن کام کے باوجود اپنے بچوں کی مناسب طریقے سے پرورش کرنے کی بھی اہل نہیں ہے- اگرچہ کہ اس کے چند بچے کبھی کبھی پبلک اسکول جاتے بھی ہیں، لیکن کیوں کہ گھر میں کوئی ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت کیلئے موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ جو اسکول جاتے بھی ہیں وہ بھی کچھ نہیں سیکھ پا رہے-

گرچہ کہ پاکستان میں پیدائش کا اوسط کچھ کم ہوا ہے لیکن ابھی بھی عالمی معیار کے مقابلے میں کافی اونچا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ 2050 تک پاکستان کی آبادی 275 ملین ( کچھ اندازوں کے مطابق 350ملین تک) بھی ہوسکتی ہے- اگر ایک بڑی تعداد نوجوانی میں غیر متناسب غذا کے باوجود زندہ بچ جاتی ہے اور غیر تعلیم یافتہ رہتی ہے تو ایک بڑی آبادی کا ڈراونا خواب ہی ہماری قسمت ہوگا-

"دو بچے خوش حال گھرانہ" اور بچوں کے درمیان کم از کم تین سال کا وقفہ اور اسی طرح کے دلکش نعرے میڈیا پر ان دنوں عام تھے- اسی زمانے میں کسی وقت، ممکن ہے پیدائش کے اوسط کے کم ہونے کی وجہ سے فیملی پلاننگ کے مسائل حکومت اور معاشرے کے ریڈار سے غائب ہو گئے- پیدائش کی شرح کم ضرور ہوئی لیکن کمی کی شرح اتنی زیادہ بھی نہیں تھی کہ ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے لیکن ہم نے بالکل یہی کیا- یہ رویہ ہمیں بدلنا ہے اور جلدی ہی-

اگر یوسف اور اس کی بیوی کی بیٹوں کے بارے میں یہ سوچ درست ہے تو اس سوچ کے پیچھے جو وجوہات ہیں ان کو درست سمت دینے کی ضرورت ہے اور اگر یہ سوچ غلط ہے تو اسے درست کرنا ضروری ہے- سکینہ کی اپنی پسند کو فوقیت دینے کی ضرورت ہے اور ہر ایک کو حق انتخاب ملنا چاہئے-

ایسے تمام لوگوں کو ریپروڈکٹو ہیلتھ کے اداروں کی خدمات ان کی حیثیت کے مطابق معقول قیمت پردستیاب ہونی چاہئیں- مختلف قسم کے سرویز سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے اداروں کی آج بہت زیادہ ضرورت ہے لیکن ریاست اس طرح کی خدمات ابھی تک فراہم نہیں کرتی- اس میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور جلد ہی-

ندیم ایک باورچی ہے، اس نے تین بچوں پر اکتفا کرلیا ہے- یہ اس کے باوجود ہے کہ اس کا ایک بچہ بیماری کا شکار ہو گیا- اس کے بھائیوں اور بہنوں کے پانچ اور چھ بچے ہیں- اس کا خیال ہے کہ وہ صرف تین بچوں کا خرچ اٹھا سکتا ہے- وہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں- وہ تعداد سے زیادہ معیار پر یقین رکھتا ہے- اگر ہم یوسف اور اس کی بیوی کو بھی اسی طرح کی یقین دہانی اور ماحول فراہم کرسکیں تو ممکن ہے ان کی ترجیحات بھی مختلف ہو جائیں-

ایسی صورت میں جبرکا کوئی عنصر نہیں ہونا چاہئے- لوگ اپنے خیال میں اپنے حالات کے مطابق بہتر انتخاب کرتے ہیں- اگر آپ ان کے انتخاب کو بدلنا چاہتے ہیں تو ان حالات کو بدلنا ہوگا جن کی وجہ سے وہ ان کا انتخاب کرتے ہیں- یوسف اور سکینہ نامعقولیت یا ناسمجھی نہیں کررہے ہیں- وہ یقیناً اپنی بہتری کے بارے میں اپنے حالات کے مطابق پریقین ہیں- اگر معاشرہ ان سے الگ توقعات رکھتا ہے تو اس انتخاب کی وجہ جو حالات ہیں ان کو بدلنے کی ضرورت ہے- لیکن اگر ہم ان مسائل پر توجہ نہیں دیتے یا دینا نہیں چاہتے تو ہمیں بدترین اور بھیانک خواب کی تعبیر دیکھنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جو چند دہائیوں کے بعد ہمارا مقدر بننے والا ہے-

انگریزی میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفرجعفری

تبصرے (0) بند ہیں