صوبوں اور وفاق کی ارسا پر کنڑول حاصل کرنے کی جدوجہد

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2013
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی میں اکتوبر 2010ء سے خالی چلی آرہی وفاق کے رکن کی نشست پر صوبوں اور وفاق میں محاذ آرائی جاری ہے۔ —. فائل فوٹو
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی میں اکتوبر 2010ء سے خالی چلی آرہی وفاق کے رکن کی نشست پر صوبوں اور وفاق میں محاذ آرائی جاری ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پانی کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ ایک دوسرا تنازعہ جاری ہونے کے باوجود بین الصوبائی معاملات پر پانی کی ملکی ضروریات کی نگرانی کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکام کی کھینچا تانی جاری ہے۔

اس تنازعہ کی بنیاد وفاقی اراکین کی نشستیں ہیں، جو اکتوبر 2010ء سے خالی پڑی ہوئی ہیں۔ ایک موزوں امیدوار کے انتخاب کے لیے وفاقی حکومت کے صوابدیدی اقدام کو چند روز پہلے سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرکز نے کوششوں کا خاطر خواہ نتیجہ حاصل کیے بغیر ایک نئے راستے کی تجویز پیش کی ہے۔

ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے مطالبے پر پانی و بجلی کی وزارت نے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے ایک شخص کی بطور ارسا کے رکن تقرری کی تجویز پیش کرچکی ہے اور اس تجویز پر اتھارٹی کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ سے ارسا کے اراکین نے اس تجویز کی سخت مخالفت کررہے ہیں، جبکہ دوسرے اراکین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ قانونی ماہرین اور صوبوں کی مشاورت کے بغیر قانونی ہی نہیں سیاسی طور پر بھی بہت پیچیدہ ہے، اور اتھارٹی کے رسمی اجلاس میں اس کو دیکھا جائے گا۔

لہٰذا ارسا کے چیئرمین نے پانی و بجلی کی وزارت کو مطلع کیا ہے کہ کسی ایک نتیجے تک پہنچنے کے لیے اتھارٹی کا ایک اجلاس چھبیس دسمبر کو منعقد کیا جائے گا۔

تاہم سندھ سے ارسا کے رکن یہ کہہ چکے ہیں کہ فاٹا نہ تو ایک اسٹیک ہولڈر ہے، نہ ہی ارسا میں فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے، یہاں تک کہ اگر دریائے سندھ کے سسٹم میں برائے نام پانی کا حصہ ڈالتا ہے، اور وہ پانی کی تقسیم کے 1991ء کے معاہدے کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ لہٰذا انہوں نے زور دیا کہ فاٹا سے ارسا کا رکن نہیں لیا جاسکتا۔

پانی کے صوبائی حقوق کے حوالے سے ایک قانونی ماہر، جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا کہ وہ وفاقی حکومت میں ایک بین الاقوامی تنازعے کی نمائندگی کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ صوبے سے یا مرکز سے ایک رکن کے تقرر کا سوال ارسا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اس لیے اتھارٹی کے لیے اس بات پر بھی غور کرنا غیرقانونی ہوگا کہ ایک رکن کو غیر رکنی ادارے ، چاہے وہ فاٹا سے ہو یا گلگت بلتستان سے ارسا میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

مذکورہ ماہر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سادہ طور پر بین الصوبائی نوعیت کا تھا، اور باہر کے ایک رکن کی نامزدگی پر غور کرنے کے لیے مناسب فورم مشترکہ مفادات کی کونسل تھی، کہ جس نے پانی کی تقسیم کے 1991ء کے معاہدے اور ارسا کی تشکیل کی اصل میں منظوری دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ سےایک امیدوار غلام عباس لغاری اور ضمیر گھمرو ایڈوکیٹ کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والے اسٹے آرڈر کی روشنی میں حکومت کو محتاط رہنا چاہیئے۔

پانی و بجلی کی وزارت نے نومبر کے آخری ہفتے میں صوبوں اور واپڈا سے کہا تھا کہ ہر کوئی ایک ممبر کی سفارش کرے، تو وزیراعظم کی جانب سے ان میں سے ایک کو نامزد کیا جاسکتا ہے۔

سندھ حکومت مقابلے میں شریک ہے اور اس نے وفاقی رکن کے طور پر انجینئر غلام عباس لغاری کو نامزد کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک ایگزیکٹیو آرڈر جو سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 2000ء میں جاری کیا گیا تھا، جو اب بھی قانونی طور پر مؤثر ہے، اس کے تحت ارسا کے پانچ اراکین میں سے دو اراکین پر سندھ کو استحقاق دیا گیا تھا، ایک رکن سندھ کی طرف سے اور دوسرا رکن وفاق کی جانب سے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پانی و بجلی کی وزارت نے اس چیز کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ ایک اور قانونی طور پر مقرر کیے گئے رکن سید مظہر علی شاہ پہلے ہی کام کررہے ہیں، سندھ کی نامزدگی پر سندھ کے رکن کے طور پر انجینئر غلام عباس لغاری کی وزیراعظم سے سفارش بھی کردی تھی۔

جب وزیراعظم سیکریٹیریٹ کی جانب سے اس کی نشاندہی کی گئی تو وزارت پانی و بجلی نے یہ سمری واپس لے لی اور صوبوں اور واپڈا سے وفاقی رکن کی نامزدگیاں بھیجنے کی درخواست کی۔

سندھ کے ڈومیسائل کے حال دو اراکین کی ارسا میں نامزدگی کے فیصلے پر پنجاب حکومت اور خاص طور پر وزیراعلٰی شہباز شریف کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ چاروں صوبوں کی مساویانہ نمائندگی کی موجودگی میں پانی کی تقسیم کی غیرجانبدارنہ نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے ارسا کے وفاقی رکن کا تقرر آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان سے کردیا جائے۔

جنوری 2011ء میں سندھ اسمبلی نے ایک مخالفانہ قرارداد منظور کی گئی تھی، جس میں وفاقی حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ سندھ سے وفاقی رکن کی تقرری کے فیصلے کو برقرار رکھے۔

تنازعے سے بچنے کے لیے بشیر ڈاہر کی مدت رکنیت کے معاہدے کی تکمیل کے بعد وفاقی حکومت نے اکتوبر 2010ء سے اس عہدے پر کسی کا تقرر نہیں کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں