میرے ایک دوست نے جو میرے ساتھ کام کرتے ہیں مجھ سے کہا کہ میں چارلس وہیلن کی کتاب 'نیکڈ اسٹیٹسٹکس' (Naked Statistics) پر ایک نظر ڈالوں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں اپنے ان شاگردوں کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دوں گا جو اعداد و شمار سے گھبراتے ہیں-

جب میں نے گوگل پر 'نیکڈ اسٹیٹسٹکس' دیکھنا چاہی تو مجھے یہ پیغام ملا:

"یہ ویب سائٹ دستیاب نہیں ہے- جس ویب سائٹ کو آپ دیکھنا چاہتے ہیں اس میں ایسا مواد موجود ہے جسے پاکستان میں ممنوع قرار دیا گیا ہے-"

میں نے چارلس وہیلن کو گوگل کیا اور مجھے یہ کتاب مل گئی- پاکستان میں سنسر کا ادارہ آخر چاہتا کیا ہے؟

ایسا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا- کئی مرتبہ جب میرے دوستوں نے ٹویٹر یا فیس بک پر کتابوں، فلسفیانہ موضوعات بلکہ روزمرہ زندگی سے متعلق عام موضوعات پر مضامین یا وڈیو کے لنکس بھیجے تو اسی قسم کے پیغامات ملے کہ؛

"پی ٹی اے نے اس ویب سائٹ کو بلاک کردیا ہے-"

بڑے بھائی جان میری پاکیزگی اور اخلاقیات کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں! میری خواہش ہے کہ، اگر انھیں ایسا کرنے کی اجازت مل بھی جائے، جو میرے خیال میں بحث طلب ہے تو ان کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ پہلے وہ پورنوگرافی اور اسٹیٹسٹکس کی کتاب میں فرق کرنا تو سیکھ لیں-

میں ان صوفی سنتوں سے بحث میں الجھنا نہیں چاہتا جن کا اصرار ہے کہ یہاں پورنوگرافی سے متعلق مواد دستیاب نہیں ہونا چاہیئے- ان میں سے بہت سے تو منافق ہیں، لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر یقین رکھتے ہیں- لیکن انھیں اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ اپنی اخلاقیات دوسروں پر لاگو کریں- لیکن ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اس قسم کی جنگیں بہت پہلے ہاری جاچکی ہیں-

لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ یہ ٹھیک ہے- عدالتوں نے بھی پاکستان ٹیلی ویژن اتھارٹی کے اس قسم کے اقدامات کی اکثر حمایت کی ہے، بلکہ ان سے مداخلت کرنے کی درخواست بھی کی ہے- اس کے علاوہ اکثر سیاستداں بھی اپنی تقریروں میں یہی کچھ اگلتے رہتے ہیں-

چنانچہ، فی الحال تو ہم یہ جنگ ہار چکے ہیں اور اسے دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں- لیکن تب بھی چند جنگیں ایسی ہیں جنھیں لڑنا ضروری ہے-

کیا پی ٹی اے اور دوسری ایجنسیوں کو اتنے ہی بھدے طریقے سے وہ مواد منتخب کرنا چایئے جسے وہ روکنا چاہتے ہیں؟ کیا ہمیں 'نیکڈ' (ننگا) جیسے لفظ کو اپنا نشانہ بنانا چاہیئے؟ کیا ایسا کرنے کے اوربھی مہذب طریقے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ ٹیکنولوجی میں سمجھداری اور دانشمندی سے چھان پھٹک کرنے کے اور بھی طریقے موجود ہیں-

مجھے جنرل ایوب کے زمانے میں اخبارات کی سنسر شپ کا ایک لطیفہ یاد آتا ہے- اردو اخبار کی ایک خبر میں یہ کہا گیا تھا کہ ایک نوجوان نے اپنے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی- ایک میجر جنرل نے جو اخبار کی خبریں سنسر کرنے کے کام پر مامور تھے ایڈیٹوریل اسٹاف سے کہا کہ لفظ 'دلبر' تو چھپ سکتا ہے لیکن 'داشتہ' نہیں چھپ سکتا- ہم آگے نہیں بڑھے، ابھی تک وہیں کے وہیں کھڑے ہیں-

یو ٹیوب پر پاکستان میں ابھی تک پابندی ہے- اگر چند کتابیں قابل اعتراض ہیں تو کیا ہم پوری لائبریری بند کردینگے؟ ایسا ہی لگتا ہے- یو ٹیوب کو بند ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے- کیا ہم بہت سی روحوں کو بچاچکے ہیں؟ کیا ہماری اخلاقیات اور اقدار بہتر طور پر محفوظ ہیں؟ اگراخلاقیات کی چوکیداری اسی طرح جاری رہنی ہے تو کیا ہم ابھی تک اس لائق بھی نہیں ہوئے ہیں کہ چھان پھٹک کرنے کا بہتر میکانزم تیار کرسکیں؟

لیکن یہاں سنسرشپ صرف پورنوگرافی تک محدود نہیں ہے، اگرچہ کہ اس میں بھی بہت کچھ گڑبڑ اور بھدا پن موجود ہے- بہت ساری سائٹس ایسی بھی ہیں جنھیں سیاسی وجوہات کی بناء پر بلاک کردیا گیا ہے- بلوچستان سے متعلق بہت سی سائٹس کو باقاعدگی سے بلاک کیا جاتا ہے-

مجھے علم نہیں کہ انھیں کس قانون کے تحت بلاک کیا جاتا ہے- اگر سائٹس کو انکی سیاسی نوعیت کے مواد کی وجہ سے بلاک کیا جاتا ہے تو، کیا ایجنسیاں ایسا کرنے کے لئے عدالت سے اجازت لیتی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اس فیصلے کو کسی نامعلوم ایجنسی کی صوابدید پر کیوں چھوڑا جائے؟ یہ شفاف کیوں نہ ہو، اسکی کھلے عام جانچ پڑتال کیوں نہ ہو اور اگر اسکی وجہ انتظامی ہو تو اسے عدالت میں کیوں نہ چیلنج کیا جاسکے؟

حال ہی میں سول سوسائٹی کی بعض تنظیموں نے ایریا اسٹڈی سنٹر کے تعاون سے پشاور یونیورسٹی میں، ملالہ یوسف زئی کی کتاب کی افتتاحی تقریب منعقد کرنا چاہی- صوبائی حکومت نے اسکی اجازت نہ دی- وجوہات یہ بتائی گئیں؛

"یونیورسٹی کو اس قسم کی سیاسی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنا مناسب نہیں، سنٹر اس کے لئے مناسب جگہ نہیں ہے، اور اس کے علاوہ سیکیورٹی کے خدشات بھی ہیں-"

گو کہ، میں نہیں سمجھتا کہ اس بات میں کوئی شک ہے کہ یہ افتتاحی تقریب کیوں روکی گئی- یہ سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ سیکیورٹی فراہم کی جاسکتی تھی- اور یقینناً یونیورسٹی کتابوں کے افتتاح کے لئے مناسب مقام ہے- اگر بحث مباحثے یونیورسٹی میں نہیں تو اور کہاں ہوں؟

سمجھا یہ جاتا ہے کہ آزادی اظہار کی سب سے زیادہ محفوظ جگہ یونیورسٹی ہی ہے بہ نسبت کسی اور جگہ کے- اور جب تک اس میں ہتک عزت، نفرت انگیز تقریریں شامل نہ ہو تو یونیورسٹی اس قسم کی سرگرمیوں کے لئے بالکل صحیح جگہ ہے-

ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ تقریب کیوں منسوخ کی گئی- صوباِئی حکومت غالباً یہ سمجھتی تھی کہ اس کتاب کا افتتاح کا لعدم پاکستانی طالبان کے لئے اشتعال کا باعث ہوگا- اور مذاکرات سے پہلے حکومتیں جو موقف اختیار کر رہی ہیں، کے پی کی حکومت گھبرا گئی اور اس نے افتتاح کے خلاف سخت اقدام کیا-

ہوسکتا ہے، بالآخر وہ اپنی غلطی تسلیم کرلیں اور افتتاحی تقریب کی اجازت دیدیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ سیکیورٹی بھی فراہم کرِیں، لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا؛ اب ہم ایک ایسی جگہ میں رہ رہے ہیں جہاں ہم اپنی کسی یونیورسٹی میں ایک سولہ سالہ لڑکی کی کتاب کا افتتاح بھی نہیں کرسکتے!

وہیلن نے دو کتابی لکھی ہیں، 'نیکڈ اسٹیٹسٹکس' اور 'نیکڈ اکنامکس'- دونوں ہی کتابیں ایسی ہیں کہ انھیں پڑھا جائے-

لیکن جب تک پی ٹی اے کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس کتاب تک رسائی دے، آپ اس تک مصنف کے نام کی مدد سے پہنچ سکتے ہیں-

معاشرے کے فرد کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مسئلہ کو اٹھائیں- وہ لوگ جو معلومات تک رسائی چاہتے ہیں، انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، جنھیں شہریوں کے حقوق کے تعلق سے تشویش ہے، اور ریاست کی جانب سے عائد کردہ سنسرشپ کے خلاف کھڑا ہونا چاہتے ہیں انھیں چاہیئَے کہ وہ متحد ہو کر ریاست کو موثر طور پر چیلنج کریں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں