پاکستانی ذہن کی بندش

اپ ڈیٹ 13 مارچ 2014
بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کون کرتا ہے؟ کیا بچے خود انتخاب کر رہے ہیں؟ لیکن ضروری تو نہیں کہ بچے صحیح انتخاب کر رہے ہوں- ہو سکتا ہے وہ تعلیم پر انٹرٹینمنٹ کو ترجیح دے کر اس کا انتخاب کر لیں جس کے ذریعے وہ دیکھ اور سن زیادہ سکیں بہ نسبت محنت اور انگیجمنٹ کے-
بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کون کرتا ہے؟ کیا بچے خود انتخاب کر رہے ہیں؟ لیکن ضروری تو نہیں کہ بچے صحیح انتخاب کر رہے ہوں- ہو سکتا ہے وہ تعلیم پر انٹرٹینمنٹ کو ترجیح دے کر اس کا انتخاب کر لیں جس کے ذریعے وہ دیکھ اور سن زیادہ سکیں بہ نسبت محنت اور انگیجمنٹ کے-

میرے ایک دوست نے 1960 کی دہائی کی چوتھی کلاس کی اک پاکستانی نصابی کتاب دکھائی- یہ مشہور شخصیات پر تھی- پہلے حصے میں رسول اللہ (ص) پر ایک باب سمیت چار ابواب تھے- دیگر باب گوتم بدھ، حضرت عیسی اور بابا گرو نانک پر تھے- کتاب کے دوسرے حصے میں ہندوستان کے مختلف حصوں کے سیاسی / دنیاوی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد پر ابواب تھے- بہت سے مسلمان بادشاہوں اور رہنماؤں کے علاوہ، اس میں اشوک کے ساتھ ساتھ راجہ رنجیت سنگھ پر بھی ابواب شامل تھے-

حال ہی میں، لاہور کے ایک اسکول میں میرا جانا ہوا- طالب علموں کے ایک گروپ نے اسکول کی غیر نصابی سرگرمیوں کے تحت ہونی والی ایک نمائش کے حصے کے طور پر دنیا بھر کے غیر معمولی انسانوں کے بارے میں ایک پاور پوانٹ پریزنٹیشن دی- اس پریزنٹیشن میں اوپر لکھے گئے کچھ نام شامل تھے- تاہم، اسکول کے سرپرستوں میں سے ایک نے بعد میں بتایا کہ اسکول میں دوسرے مہمان بھی موجود تھے جن کا پریزنٹیشن دیکھنے کے بعد کہنا تھا کہ اسے کرونولوجیکل آرڈر میں پیش نہیں کرنا چاہئے تھا اور رسول اللہ محمّد صلعم کا نام سب سے پہلے آنا چاہئے تھا- ایک ممتاز فقیہہ نے تو بظاہر یہاں تک که دیا کہ دوسری شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی-

بعد میں، میں نے طالب علموں کے ساتھ بھی تھوڑا انٹرایکٹ کیا- جب میں نے ان سے پوچھا کہ حالیہ شخصیات میں سے وہ کن سے متاثر ہیں تو وہ صرف جناح اور اقبال کے نام لے سکے- انہوں نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نام تک نہیں سنا ہوا تھا- اور گاندھی تو ان کے نزدیک ہیرو تو چھوڑیں کوئی قابل ذکر شخصیت بھی نہیں-

تبدیلی صرف مواد میں نہیں آ رہی، جس طریقے سے ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، وہ بھی تبدیل ہو رہا ہے- او لیول کا کورس او لیول سے پہلے ہی شروع کرا دیا جاتا ہے تا کہ زیادہ وقت حاصل کیا جا سکے- ایک سال میں دو یا تین مضمونوں کے امتحان دلائے جاتے ہیں تا کہ بہتر گریڈ حاصل کیے جا سکیں- رٹا بازی، پچھلے پندرہ سالوں کے مقابلے میں زیادہ عام ہو گئی ہے، یہاں تک کہ اچھے اور بڑے اسکول بھی اس لعنت سے پاک نہیں-

گائیڈز، نوٹس اور سمریوں پر انحصار بڑھ گیا ہے- ماضی کے عظیم ادیبوں اور دانشوروں کے کلاسیکی اور اصل خیالات کے ساتھ انگیجمنٹ مزید محدود ہے- پڑھائی مزید کم ہو گئی ہے- اور یہ اسکول اور یونیورسٹی، دونوں پر لاگو ہے- میں اکثر اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ کتنے اخبار باقائدگی سے پڑھتے ہیں تو ایسے بہت ہی کم ہیں- بہت سوں کو تو دوستوں کی جانب سے فیس بک اپ ڈیٹس کے ذریعے ہی بیرونی معلومات باقائدگی سے حاصل ہو پاتی ہیں-

ایک وقت تھا، جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن یعنی پی ٹی وی، جو اس وقت واحد چینل ہوا کرتا تھا باقائدگی سے انگریزی زبان میں موویز اور سیریلز دکھایا کرتا تھا- مجھے اب بھی یاد ہے کہ شام میں ایک کارٹون آتا تھا اور پرائم ٹائم میں کوئی سیریل یا کامیڈی ڈرامہ وغیرہ آتا تھا- رات گئے کوئی مووی، ہفتے میں تین یا چار بار ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی- ان میں سے بہت سی موویز اور سیریلز بہت ہی اچھی ہوتی تھیں اور پاکستانی ناظرین کیلئے نہایت احتیاط سے انہیں منتخب کیا گیا تھا-

میں نے ان پروگراموں سے دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھا کہ لوگ کیسے رہتے ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں اور اخلاقی نظام کیا ہے- انگریزی زبان اور ادب سے میری محبت بھی ان ہی پروگراموں کی دین ہے-

پی ٹی وی اب ایسا نہیں کرتا- کوئی یہ بھی که سکتا ہے کہ اور بھی بہت سے چینلز ہیں جو دنیا بھر کے پروگرامز اور موویز دکھاتے ہیں- ایسے مواد تک رسائی، ڈی وی ڈیز نے مزید آسان بنا دی ہے- یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن چونکہ پی ٹی وی اب ایسا نہیں کرتا اور اب بھی بہت سے لوگ پی ٹی وی ہی دیکھتے ہیں لہٰذا یہ نقصان ہی ہے-

پھر انتخاب کا معاملہ مزید اہم اور نازک ہو جاتا ہے- بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کون کرتا ہے؟ کیا بچے خود انتخاب کر رہے ہیں؟ لیکن ضروری تو نہیں کہ بچے صحیح انتخاب کر رہے ہوں- ہو سکتا ہے وہ تعلیم پر انٹرٹینمنٹ کو ترجیح دے کر اس کا انتخاب کر لیں جس کے ذریعے وہ دیکھ اور سن زیادہ سکیں بہ نسبت محنت اور انگیجمنٹ کے- ہو سکتا وہ وہ ایسے مواد کا انتخاب کر لیں جو زبان، تصویری خاکوں اوراقدار کے حساب سے ان کی عمر سے مناسبت نہ رکھتا ہو- زیادہ لیکن غیر معیاری مواد کی موجودگی میں بچوں کو انتخاب کرنے کی آزادی دینا ضروری نہیں کہ اچھی چیز ہو-

معلومات حاصل کرنے کا ہمارا طریقہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے- پڑھائی سے ہم، سننے اور دیکھنے کی طرف منتقل ہو رہے ہیں- پڑھائی میں گہری انگیجمنٹ ہے- آپ ایک بار پڑھتے ہیں، دوبارہ پڑھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو جب چاہیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی پڑھ سکتے ہیں- پڑھنے میں دھیان لگانا پڑتا ہے جبکہ سننے میں ہوتا یہ ہے کہ ہم کام کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی سن رہے ہوتے ہیں یعنی ملٹی ٹاسکنگ میں لگے ہوتے ہیں- دیکھنے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے-

آج ہم اپنی خبریں ٹی وی اور ریڈیو سے حاصل کرتے ہیں نا کہ اخباروں سے- دوسروں کے خیالات اور اعمال کے ساتھ ہماری انگیجمنٹ، ذاتی انٹریکشن یا پڑھنے کے بجائے کمپیوٹر، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے زیادہ ہے- یہ سب ہماری انٹریکشن کو تنگ اور اسے اتھلا بناتے ہیں-

ہمارا اٹینشن اسپین (توجہ ایک جانب مرکوز کرنے کا دورانیہ) کم ہوتا جا رہا ہے- حتیٰ کہ جب ہم پڑھتے بھی ہیں تو ایسا لگنے لگا ہے جیسے کتابیں اور لمبے آرٹیکل نایاب ہوتے جا رہے ہیں- ہمیں تو کسی بھی دلیل کا جتنا ممکن ہو مختصر خلاصہ چاہئے- ٹیلی ویژن اور ریڈیو مختصر توجہ طلب دورانئے کیلئے آئیڈیل بھی ہیں اور مختصر توجہ طلب دورانئے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں- ہم مختلف چینلوں کی سرفنگ کرتے رہتے ہیں اور ہوتا تو یہ ہے کہ ایک چینل دیکھتے ہوئے بھی ہمیں توجہ صرف اشتہاروں کے وقفے کے دوران ہی دینی ہوتی ہے ورنہ خبریں تو زیادہ تر ایک ٹکر کی صورت میں اسکرین کے نیچے آ ہی رہی ہوتی ہیں-

جو کچھ یہاں لکھا گیا، وہ واضح طور پر عالمی مسائل ہیں لیکن وہ مقامی طور پر ہمیں متاثر کر رہے ہیں- ہمیں اپنے طالب علموں، اپنے بچوں اور اپنے شہریوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے- یہ سب چیزیں لوگوں کی ذہنیت کو محدود کر رہی ہیں اور انہیں چھوٹا دانشور اور شہری بنا رہی ہیں اور اس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں- اس کے سدباب کی حکمت عملی مائیکرو لیول تک بھی لاگو کرنا ہو گی-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں