ملاقات اور پیغام

17 اپريل 2014
وزیر اعظم نواز شریف سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ فوٹو اے پی پی
وزیر اعظم نواز شریف سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ فوٹو اے پی پی

ملاقات اور اس کا ایجنڈا شاید حالیہ فوجی - سیاسی محاذ آرائی کے آغاز سے قبل ہی طے ہو چکا تھا اور بدھ کو دونوں اطراف سے اصل مدعے پر رہنے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی۔

لیکن کیونکہ سیاست میں سیاق و سباق ہی سب کچھ ہوتا ہے لہٰذا آصف علی زرداری کی نواز شریف سے ملاقات کے بعد صرف ایک سوال ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کیا سیاسی اتحاد دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ فوج و سیاسی قیادت کے درمیان جاری بحران خاتمے کی جانب گامزن ہے یا پھر وزیر اعظم اپنے ہی منتخب کردہ آرمی چیف سے آخری معرکے کی تیاری کر رہے ہیں؟

ماضی میں انتہائی قریب سے فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان اتار چڑھاؤ کے گواہ پیپلز پارٹی کے سینئر سینیٹر رضا ربانی نے ڈان سے گفتگو میں روایتی محتاط انداز اپناتے ہوئے کہا 'اس ملاقات کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دونوں رہنما مل کر کوئی پیغام بھیج رہے ہیں۔ اسے اداروں کی مضبوطی کے لیے جمہوری قوتوں کے اتحاد کے طور پر دیکھا جائے'۔

' اسے کسی ادارے یا مختلف اداروں کے خلاف نہ سمجھا جائے'۔

لیکن ربانی کا یہ محتاط بیان محض جمہوری لفاظی نہیں بلکہ انہوں نے موجودہ بحران کو بہتر انداز میں محسوس کیا ہے۔

انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ابھی صورتحال اس نہج تک نہیں پہنچی جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔

انگریزی روزنامہ 'دی نیشن' کے اسلام آباد ایڈیشن کے ایڈٰیٹر سلمان مسعود نے کہا کہ جب بھی فوج کی جانب سے جارحانہ رویہ اپنایا جاتا ہے تو سیاستدان ایک جگہ جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

یہ آنکھوں کو بہت بھلا محسوس ہوتا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ کتنا متاثرکن ہو گا۔

'میرا نہیں خیال سول- ملٹری بحران سے جمہوریت بند گلی میں پہنچ جائے گی'۔

مسعود کے مطابق، سیاسی و فوجی تعلقات میں بحران ابھی تک منطقی انجام تک نہیں پہنچا اور وزیر اعظم کی جانب سے جنرل راحیل شریف کی کاکول ملٹری اکیڈمی کی گریجویشن تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرنے سے یہ تعلقات بہتری کی جانب گامزن دکھائی دیتے ہیں۔

رضا ربانی سمیت پیپلز پارٹی کے رہنما اس ملاقات کے ثمرات کو نمایاں کرنے لیے کوشاں نظر آتے ہیں جہاں ان کا لائحہ عمل سندھ اور وفاق کے درمیان مالی تعلقات، 18ویں ترمیم کے بعد منتقلی کے عمل، کراچی آپریشن اور تحفظ پاکستان آرڈیننس کے گرد گھوم رہا تھا۔

ربانی نے کہا کہ یہ منفی نہیں بلکہ ایک مثبت پیغام ہے کہ جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے سیاسی قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔

تاہم بنیادی مسائل پر تاحال وضاحت درکار ہے: کیا یہ تصادم اس لیے ہوا کہ فوجی قیادت مشرف کے ٹرائل کی مخالف تھی یا پھر مقدمے کے دوران ہونے والی سیاست بازی پر برہمی کا اظہار کیا گیا یا پالیسی میں واضح اختلاف کی بنا پر ہوا یا یہ سب خارجہ پالیسی یا پھر حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل میں قیدیوں کی رہائی پر ہوا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کی اصل وجوہات کے بارے میں آن ریکارڈ گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے لیکن نجی گفتگو میں انہوں نے دو باتوں کو اٹل قرار دیا۔ پہلی کہ جب مشرف کے خلاف بغیر کسی منصوبہ بندی کے مقدمے چلانے کی اجازت دی گئی تو وزیر اعظم نے اسے کسی ایک منزل کی جانب لیجانے کی کوشش نہ کی۔

دوسرا، یہ موجودہ بحران تو ختم ہو جائے گا لیکن قربانی کا بکرا کسے بنایا جائے گا؟۔

یقیناً یہ خواجہ آصف ہی ہوں گے جن کے پاس وزیر دفاع کا اضافی عہدہ موجود ہے اور اسے اوپر سے نیچے تک فوجی قیادت کی مکمل رضامندی کے بعد فوجی قیادت کے حوالے کردیا جائے گا۔

تاہم وزیر دفاع کے انتہائی قریبی ساتھی نے دعویٰ کیا کہ جمہوری عمل کی کامیاب منتقلی اور حکومت میں ان کی موجودہ حیثیت کے پیش نظر آصف کے لیے وزارت دفاع کا عہدہ چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کرنا بھی انتہائی مشکل فیصلہ ثابت ہو گا۔

حکومتی کشمکش کو اس وقت اپوزیشن حلقے واضح طور پر سامنے لا چکے ہیں جہاں حالیہ صورتحال میں ن لیگی رہنماؤں کے مقابلے میں وہ زیادہ آزادی کے ساتھ آن ریکارڈ گفتگو کر سکتے ہیں۔

ربانی نے اعتراض کیا کہ قربانی کا بکرا بنانا سسٹم کے لیے اچھی علامت نہیں لیکن قدرے محتاط ہوتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کو ہی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

سیاست دانوں کو بھی موجودہ عمل کی حساسیت کو سمجھنا چاہیے۔ جمہوری عمل کی منتقلی میں ہمیشہ خطرہ موجود رہتا ہے۔

تاہم صحافی مسعود نے دوٹوک انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ دارومدار اس بات پر ہے کہ نواز کیا کرتے ہیں۔

کیا وہ خواجہ آصف کو دستبردار کرا کر فوج کو شانت کر لیں گے جبکہ اگر وہ ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو اس سے سول ملٹری تعلقات کا اندازہ ہو گا۔

موجودہ علامات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز محاذ رائی کے راستے سے اجتناب کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں