تباہی کے دہانے پر

20 اپريل 2014
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون  --  فائل فوٹو۔۔۔۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون -- فائل فوٹو۔۔۔۔

ستم ظریفی کو نظرانداز کرنا بہت ہی مشکل ہے- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے حال ہی میں سینٹرل افریقن ریپلک (CAR) میں کچھ تھوڑا وقت قیام کیا- وہ بیسویں صدی کے بھیانک ترین مظالم میں سے ایک، 1994 میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی بیسویں سالگرہ کی تعزیتی تقریبات میں شرکت کے لئے کیغالی جا رہے تھے-

واشنگٹن پوسٹ میں پیر کے روز چھپے اپنے آرٹیکل میں وہ لکھتے ہیں کہ کچھ بھی انہیں اس کے لئے تیار نہیں کر سکتا تھا جو کچھ اپنی آمد پر انہوں نے وہاں دیکھا- وہ لکھتے ہیں "ستر ہزار سے زیادہ افراد انتہائی بدتر حالات میں ائیرپورٹ کے میدانوں میں پڑے ہیں- خوش قسمت لوگوں کو رن وے کے نزدیک موسموں کے مارے تارپولین کے سائے نصیب ہیں جبکہ باقی سب کھلے آسمان تلے سوتے ہیں--- مردوں اور عورتوں نے گینگ ریپس، بھتہ خوری اور بربریت کی بھیانک داستانیں بیان کیں"-

یہ بات تو ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ کو بظاہر اس حقیقت کا احساس اور افسوس ضرور ہے کہ ان کی تنظیم، شارٹ ٹرم میں شاید کچھ بھی نہیں کر سکتی- ایک 12،000مضبوط امن فوج کے لئے ان کی درخواست گو قبول کر لی گئی ہے لیکن اس کی تعیناتی میں تقریباً چھ ماہ کا وقت لگ جائے گا- یہاں روانڈا میں ہوئے قتل عام کو یاد کرنا ضروری ہے جس میں سو دنوں کے اندر تقریباً دس لاکھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے-

بان کو یہ بھی احساس ہے کہ وقت ضائع کرنا کتنا سنگین ہے تاہم وہ اس بارے میں کچھ زیادہ کر نہیں سکتے- اقوام متحدہ کا اسٹرکچر ہنگامی حالات کی صورت میں تقریباً مفلوج ہو جاتا ہے- روانڈا اس کی ایک مثال ہے-

نیو یورکر میں فلپ گوریویچ لکھتے ہیں "قتل و غارتگری کا وہ سیزن جس نے بیس سال پہلے روانڈا کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، بنی نوع انسان کو بیان کرتی انتہائی شرمناک ترین حالتوں میں سے ہے- ہماری نوع کی تاریخ میں ہم میں سے اتنے زیادہ افراد اتنے تیزی سے اتنے سے وقت میں ہلاک نہیں ہوئے"- اور ایسا بھی نہیں کہ اس پورے معاملے میں بیرونی طاقتیں بالکل بھی ملوث نہیں تھیں-

کیغالی میں واقعے کی سالگرہ کی تقریبات میں فرانس کی نمائیندگی نہیں تھی کیونکہ پیرس روانڈا کے صدر پال کگامے کے اس بیان پر ناراض تھا کہ فرانسیسی افواج، ان میں سے بہت سے افراد کو فرار کی سہولت بہم پہچانے میں ملوث تھیں جو ہوتو ملیشیاز کے ہاتھوں توتسی اقلیت کے قتل عام کروانے کے ذمہ دار تھے-

بہرحال کگامے کی زیر قیادت توتسی افواج نے بلآخر اقتدار حاصل کر لیا اور انہیں امریکی امداد سے فائدہ پہنچا-

اس خاص تناظر میں دیکھا جائے تو CAR میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء قوتوں آپس میں تقابلہ نہیں کیا جا سکتا تاہم کچھ مماثلتیں ضرور ہیں- اس زمانے میں توتسیوں کا روانڈا کی آبادی میں مجموعی تناسب پندرہ فیصد تھا اور آج CAR کے مسلمانوں کا بھی ملکی آبادی میں یہی تناسب ہے اور اس بار وہ حالیہ جاری تشدد کا نشانہ ہیں- اس زمانے میں توتسیوں کو زیادہ مراعات یافتہ ہونے کے سبب نشانہ بننا پڑا تو CAR کے مسلمانوں کے بارے میں آج خیال یہ ہے کہ وہ عیسائی اکثریت کے مقابلے میں خوشحال ہیں-

حالیہ قتل عام جزوی طور پر بنگوئی میں پچھلے سال مسلم سیلیکا ملیشیا کے اقتدار سنبھالنے کا ردعمل ہے جس کو کسی حد تک پڑوسی چاڈ اور کیمرون اسپانسر کر رہیں ہیں اور جو کہ CAR کے عیسائیوں کے خلاف مظالم میں ملوث ہے- چند مقامی مسلمان بھی اس شرمناک عمل میں ملوث ہوئے ہیں تاہم زیادہ تر کا اس میں کوئی بھی کردار نہیں- تاہم نام نہاد "بلاکا مخالف" ملیشیا جس کا اس وقت غلبہ ہے اس بات کے لئے خاصی پرعزم ہے کہ ملک سے تمام مسلمانوں کا یا تو خاتمہ کر دیا جائے یا پھر انہیں ملک سے نکال دیا جائے-

اگر چھ ہزار سے زیادہ افریقن یونین کے پیس کیپرز موجود نہ ہوتے تو نہ جانے کتنے افراد کا بلا شک و شبہ قتل عام ہوتا- ان کی موجودگی کے ساتھ سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس کے دو ہزار کے قریب فوجی بھی موجود ہیں تاہم اس کی فوج کی موجودگی سے تحفظات اٹھنا لازمی ہے-

افریقن یونین کے امن دستوں کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کے امن دستے اس سال کے آخر تک آ جائیں گے تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے آیا مناسب تعداد میں ملک رضاکارانہ طور پر اپنے فوجی بھیجنے پر آمادہ ہوں- بظاہر تو سرحد سے جڑے پڑوسی ملکوں کے علاوہ کوئی بھی ملک CAR میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا اور پڑوسی ملکوں کے اپنے اپنے ایجنڈے اور مفادات ہیں-

افریقہ کے غریب ترین ریاستوں میں سے ایک، CAR، انیس سو ساٹھ میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی خاصی حد تک غیر فعال رہا ہے- شاید اس کا سب سے بڑا حوالہ یہی ہے کہ یہ مضحکہ خیز 'شہنشاہ' جین بیدل بوکاسہ کی بنیاد تھا- اس سے پہلے اور اس کے بعد سے اب تک یہاں متعدد فوجی بغاوتوں کے علاوہ ایسے بھی بہت سے انتخابات ہوتے آئے ہیں جن کے نتائج پہلے ہی سے سب کو معلوم ہوتے ہیں-

امید کی چند علامتوں میں سے ایک مشن ہے جس میں قوم کے آرچ بشپ اور چیف امام نے یورپی حکومتوں سے امداد کی اپیل کے ساتھ ساتھ داخلی سطح پر بھی سمجھ بوجھ کی واپسی کا پرچار کیا ہے- یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کو اکثر گرجا گھروں میں پناہ حاصل ہوئی-

دو ماہ پہلے، بظاہر نیک نیت، بنگوئی کی سابقہ میئر، کیتھرین سامبا پانزا نے CAR کی پہلی خاتون صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا- ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ ان حالات میں مصالحت کے حوالے کیا کرنا چاہئے وہ اچھی طرح جانتی ہیں تاہم اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان کے پاس مناسب اختیارات اور طاقت نہیں-

بیس سال پہلے جب روانڈا اندر سے ڈھے رہا تھا، اقوام متحدہ وقت ضائع کرتی رہی اور اس کے بعد سے اب تک وقفے وقفے سے ہاتھ باندھے یہی کرتی آ رہی ہے- لاچار اور بے بس بان کی مون جانتے ہیں کہ CAR کے معاملے میں چھ ماہ کا انتظار کتنا بھیانک ثابت سکتا ہے- اشارہ: کیا خیال ہے ایک بار پھر ہاتھ باندھ کر فکر کا اظہار کرتے ہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں