خوش فہمی کیوں؟

14 مئ 2014
'تحفوں' اور قرضوں کو میکرو پالیسی کے استحکام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ خوشی منانے کا موقع ہے-
'تحفوں' اور قرضوں کو میکرو پالیسی کے استحکام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ خوشی منانے کا موقع ہے-

اس سال کی پچھلی چوتھائی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف تقریباً 3.2 فی صد تھی- یہ بتایا گیا تھا کہ مالیاتی سال کی پہلی چوتھائی میں اس کی شرح 5 فی صد رہے گی- حکومت نے اپنے جوش میں غالباً اس خیال سے کہ قوم کے سامنے صرف اچھی خبریں پیش کی جائیں، پہلی چوتھائی کے لئے ترقی کی شرح کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا چنانچہ اسے دوسری چوتھائی کے اعداد و شمار میں تبدیلی کرنی پڑی- وجہ خواہ کچھ بھی رہی ہو، ترقی کے اعدادوشمار سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ معیشت سنبھل رہی ہے-

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) اس بات کی کوشش میں ہے کہ ریوینیو جمع کرنے کے نظرثانی شدہ اہداف حاصل کر لئے جائیں- لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو گا- لیکن اس بھی بڑھ کر تو یہ کہ، ٹیکس کے دائرہ کو اور ٹیکس نیٹ کو پھیلانے اور غیر معمولی استثناء/سبسیڈیز کو ٹیکس کے نظام سے ختم کرنے کی معمولی کوششیں ہوئی ہیں- اب بھی کاشتکاروں اور تاجروں سے کم ٹیکس لیا جاتا ہے-

لیکن اس بات پر بڑی خوشیاں منائی جارہی ہیں کہ روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے- روپے کی شرح کو فی ڈالر 97-96 کی سطح پر لانے کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے- روپے کی قدر میں اضافے سے کیا ظاہر کرنے کی کوشش ہورہی ہے؟ عموماً کرنسی کی قدر میں اضافہ کا تعلق معیشت کے بنیادی اور اہم عناصر کی قوت سے مشروط ہوتا ہے- اسی لئے کرنسی کی قدر میں اضافہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ معیشت مضبوط ہورہی ہے- لیکن یہاں روپے کی قدر میں اضافے کا تعلق معیشت کی مضبوطی سے نظر نہیں آتا- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ "دوستوں" کے "تحفوں" اور بین الاقوامی مارکیٹوں کے قرضوں کی وجہ سے ہمارے روپے کی قدر بڑھ گئی ہے- اس کی اہمیت کیا ہے اور یہ سمجھنے کا کیا جواز ہے کہ روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے؟

حکومت نے 97-96 کو شرح مبادلہ کا ہدف کیوں مقرر کیا؟ شرح مبادلہ کی یہ خصوصی سطح پالیسی کا متبادل نہیں ہوسکتی- ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ ہماری شرح مبادلہ قدرے مستحکم ہو لیکن ہماری شرح مبادلہ لچکدار رہی ہے اور اس کا ایک جگہ بندھ جانا نہ تو اہمیت رکھتا ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے- کیا حکومت واقعی یہ سمجھتی ہے کہ 97-96 کی شرح مبادلہ کو اس وقت متوازن سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو شرح مبادلہ کو قرضوں اور تحفوں کے بغیر اس سطح پر مستحکم ہوجانا چاہیئے تھا- لیکن ایسا نہیں ہوا اور حکومت کو بھی چاہیئے کہ اس کا دفاع نہ کرے اور اس شرح مبادلہ کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی توانائی ضائع نہ کرے-

پاکستان میں میکرو اکنامکس پر بحث کا انداز نرالا ہے- حکومت نے بین الا قوامی مارکٹ میں بانڈز فروخت کرکے 2 بلین ڈالرز حاصل کئے- اس پر خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں- اصل بات یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی بازار زر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے-

اگرچہ یہ کامیاب 'واپسی' ہوسکتی ہے لیکن قرض حاصل کرنے میں کامیابی کو معاشی 'بحالی'یا حکومت وقت کی پالیسیوں کی کامیابی کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ جہاں کہیں سے بھی ممکن ہو ہم قرض لے رہے ہیں: ملٹیلیٹرل، بین الاقومی منڈیاں، دوست وغیرہ وغیرہ- اس کے نتیجے میں ہمارے غیر ملکی ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے اور ہمارے زر مبادلہ کی شرح کو مستحکم رکھنے میں مدد مل رہی ہے- لیکن قرضے لینے کو کسطرح ایک اچھی معاشی پالیسی کی علامت یا معاشی بحالی قرار دیا جاسکتا ہے؟

ہم نے حال ہی میں 3G/4G کے حقوق 1۔1 بلین میں فروخت کئے- اسکے نتیجے میں ہماری معیشت کچھ عرصے تک مستحکم رہے گی- حکومت ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کے منصوبے بھی جوش و خروش سے بنارہی ہے- اگر ان ریاستی اداروں کی نجکاری توقع کے مطابق جاری رہی تو اس سے بھی نقد آمدنی ہو گی- اس سے حکومت کو موقع ملے گا کہ وہ زر مبادلہ اور شرح مبادلہ کو کچھ عرصے تک مستحکم رکھ سکے، اور حکوت کے مالیاتی وسائل بھی بہتر حالت میں ہونگے- لیکن نجکاری اور اثاثوں کی فروخت بھی جسکے مالک پاکستان کے عوام ہیں، معاشی بحالی میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتےاور ان مسائل کا حل نہیں جو ہماری معیشت کو درپیش ہیں-

حکومت معیشت کی مائیکرو سطح کے شعبے میں ناکام ہوتی محسوس ہورہی ہے جس میں اصلاحات کی ضرورت ہے- ٹیکسوں کی اصلاح میں ہم کس حد تک کامیاب رہے؟ کیا ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں قابل لحاظ اضافہ ہوا؟ کیا انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ڈھانچوں میں پائی جانیوالی خرابیوں کو دور کیا گیا؟ کیا حکومت FBR کے تمام SROs کو ختم کرنے میں کامیاب رہی بلکہ کیا یہ FBR میں موجود SROs کے کلچر کو ختم کر پائی؟ کیا کاشتکاروں، تاجروں، تھوک بیوپاریوں اور خردہ فروشوں وغیرہ کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا؟ کیا عوام مزید ٹیکس دینے کے لئے تیار ہیں؟ کیا حکومت پاکستانیوں کو یقین دلا پائی ہے کہ انھیں ٹیکس دینا چاہیئے؟

تجارت کے شعبے میں کیا حکومت ان چند یا کسی بھی نمایاں خرابیوں کو دور کر پائی ہے جنِھں ہم کئی دہائیوں سے برداشت کرتے رہے ہیں؟ کیا آٹو سیکٹر کو کچھ کم تحفظ دیا گیا ہے؟ عمومی طور پر کیا حکومت پراپرٹی رائٹس اور کنٹریکٹس پر عمل درآمد سے منسلک مسائل سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے؟ کیا کاروبار کرنے کے مصارف میں کمی ہوئی ہے؟ ان سارے سوالات کے جواب ہمیں نفی میں ملتے ہیں- پھر ہم کسطرح یقین کرسکتے ہیں کہ استحکام آئے گا اور ہم کسطرح زر مبادلہ کے شعبے میں استحکام کو معاشی بحالی کی علامت سمجھ سکتے ہیں؟

'تحفوں' اورقرضوں کو میکرو پالیسی کے استحکام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ خوشی منانے کا موقع ہے- اگر مسائل ---- معیشت کے اندر اور میکرو لیول پر برقرار رہیں --- جن کا سامنا ہم کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں اور اگر انھیں حل نہ کیا گیا تو قرضوں کے ذریعے بلکہ نجکاری کے ذریعے حاصل ہونے والے استحکام کی مدت بھی مختصر ہو گی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (1) بند ہیں

عامر May 15, 2014 12:52am
بس........خوش نہ ہون دینا سانوں،،،،، ڈرائی رکھنا!