جیمس برنس اور میروں کا دربار

15 مئ 2014
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ
مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو برنس روڈ پر دستیاب نہیں۔ -- فوٹو اختر بلوچ

جیمس برنس برطانوی راج کے ایک ڈاکٹر کی شکل میں جاسوس تھا جنہوں نے 18 ویں صدی میں میروں کے دربار تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سندھ کے دربار مطبوعہ 11 اکتوبر 2004 چھٹی اشاعت کے ابتدائیے میں سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری اعجاز منگی لکھتے ہیں؛

"ڈاکٹر برنس ایک ایسی قوم کا فرد تھا جس نے سندھ پر قبضہ کرکے اس پر برطانوی راج قائم کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔ اس کے سبب وہ مقامی حکمرانوں، قبیلوں اور عام لوگوں کو کمتر اور لاچار سمجھتے تھے۔ اس کے باعث ان سے نفرت ان کے دل میں موجود تھی۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا آنکھوں دیکھا حال اس وقت کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مواد پڑھنے والوں کے لیے معلومات کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے اور دل چسپی سے خالی نہیں۔"

جیمس برنس کی ان خدمات کے حوالے سے انگریزی دور میں کراچی کی ایک شاہراہ کا نام برنس روڈ رکھا گیا۔ تقسیم کے بعد اس شاہراہ کا نام شاہراہ لیاقت رکھ دیا گیا۔ لیکن اگر آپ شاہراہ لیاقت کی کھوج میں نکلیں تو شاید ہی کوئی جانتا ہو لیکن کراچی میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ملے جیسے برنس روڈ کا پتا نہ معلوم نہ ہو۔

اس کی وجہ جیمزبرنس کی برطانوی راج کے لیے خدمات کا اعتراف نہیں اور نہ ہی لیاقت علی خاں کی عظمت کو تسلیم کرنا ہے بلکہ اس کی وجہ برنس روڈ پر فروخت ہونے والی مزے دار حلیم، بریانی، دہلی کی نہاری، دہی بڑے، قورمہ، گولا کباب، حلوہ پوری، مٹھائی، غرض کہ کھانے پینے کی کون سی چیز ہے جو اس سڑک پر دستیاب نہیں۔

جیمس برنس نے اپنی کتاب سندھ کے دربار میں اس وقت کے حکمران خاندان تالپور میروں کے بارے میں بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ کتاب کے صفحہ نمبر 35 پر لکھتے ہیں ؛

"بلوچوں کی روایت کے مطابق مریض کو دوائی کھلانے سے پہلے حکیم کو خود بھی دوا کھانی پڑتی تھی۔ میر مراد علی دوا کو کیسے ہاتھ لگاتے جب تک میں نہ کھا لیتا میں بھی اس کڑوی دوا کی دو تین خوراکیں کھا کر تھک سا گیا تھا۔ آخر شامت ایک بدبخت نوکر پر پڑی۔ اس بے چارے کو بغیر کسی گناہ یا فائدے کے کافی وقت تک دوا لینی پڑی جس کے سبب اس کے دل و دماغ پر برطانوی دواؤں کے بارے میں بہت برا اثر پڑا ہوگا۔"

جیمس برنس کے بارے میں ہم نے کافی کوشش کی کہ طب کے حوالے سے انہوں نے کہاں سے تعلیم حاصل کی اور کتنا عرصہ، لیکن بد قسمتی سے اس بارے میں کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ میر حکمرانوں کی جدید طب کے بارے میں معلومات تو ویسے ہی نا ہونے کے برابر تھی۔ لیکن جیمس برنس میر مراد علی کو شفایاب کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے اس کا اعتراف وہ اپنی کتاب میں یوں کرتے ہیں؛

"خلاف توقع اچانک صحت یابی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں نے آتے ہی گرم دواؤں کا استعمال بند کر دیا۔ لیکن میر صاحبان یہ سمجھے کہ میں کوئی نہایت تجربے کار حکیم ہوں۔ اس بعد خوش قسمتی سے ایسے اتفاقات ہوئے کہ میروں کومیری قابلیت کا مکمل یقین ہوگیا۔"

آخر وہ ایسی کون سی دوا تھی جس کے فوری استعمال سے میر صاحبان مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتے تھے؟ اس بارے میں جیمس برنس کا کہنا ہے؛

"یہ دوا کونین تھی۔ اس کے بارے میں سندھ کی عوام کو اب تک کوئی معلومات نہیں ہے۔ مقامی لوگ جو موسمی بخار کا شکار ہوتے تھے ان کے لیے یہ ایک بہترین علاج ہے۔ اس کے سبب میں لوگوں کو پہلے ہی بتادیتا تھا کہ ان پر اس دوا کا کیا اثر ہوگا۔ لوگ اس پر حیران بھی ہوتے تھے ۔ لیکن جب میر صاحبان کو کونین کے زود اثر ہونے کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے کونین کی شیشی بغیر میری اجازت، اپنے استعمال کے لیے تالے میں بند کرکے رکھ دی۔ ایک بار جب میں خود سخت بیمار ہوا تب بھی مجھے دوا نہ دی۔ رخصت ہوتے وقت میں نے ان سے خالی بوتل واپس مانگی تو وہ بھی دینے سے انکار کر دیا! ان کا خیال تھا کہ دوا کے ساتھ ساتھ شیشے میں بھی کوئی جادوئی اثر ہے"

میر حکمرانوں کی عادتیں بھی ہندوستان کے دیگر حکمرانوں جیسی ہی تھی۔ لونڈیاں رکھنا کوئی معیوب بات نہ تھی۔ لیکن ان لونڈیوں سے پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ ان کا سلوک ناقابل بیان حد تک خراب ہوتا تھا۔ جیمس برنس اس حوالے سے لکھتے ہیں؛

"میر محمد خان کے کوئی اولاد نہیں، یاد رہے کہ سندھ کے دربار میں رواج یہ ہے کہ لونڈیوں کے بطن سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں انہیں مار دیا جاتا ہے۔اس خوف ناک رواج کے سبب بے دردی سے ظلم ہوتے تھے. مجھے با وسوق آوازوں سے معلوم ہوا کہ اس خاندان کے فقط ایک فرد نے کم از کم 27 بچے قبر میں دفن کیے۔"

حالاں کہ اس سلسلے میں حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں؛ "جو لوگ اپنی جہالت اور بے علمی کے سبب اپنے بچوں کو ہلاک کرتے ہیں وہ خدا کی جانب سے دئیے گئے رزق کو حرام کرتے ہیں ان کے لیے چھٹکارا نہیں۔"

میرصاحبان کی حکمرانی کا انداز اس وقت کے ہندوستان کے حکمرانوں سے ذرا مختلف تھا۔ برصغیر کے دیگر حصوں میں اصل حکمران وہی ہوتا تھا جو تخت نشیں ہوتا تھا اس کے دوسرے بھائیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی، ضرورت پڑنے پر انہیں قتل بھی کردیا جاتا تھا لیکن میر صاحبان ایسے نہ تھے سارے بھائی جو تعداد میں 3 تھے مل کر حکمرانی کرتے تھے لیکن کسی کو بھی دارالحکومت میں تنہا نہیں رہنے دیتے تھے اس کا سبب جیمس یوں بیان کرتا ہے؛

"میروں کی ایک عجیب خصوصیت ہے۔ ان کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔ میں اس کا ذکر پہلے بھی کرچکا ہوں کہ مراد علی کی علالت کے وقت یہ سب کئی مہینوں تک حیدرآباد کے قلعے سے باہرہی نہیں نکلتے تھے۔ جب وہ شکار کرنے نکلتے تو احتیاطاً کسی کو بھی قلعے میں تنہا نہیں رہنے دیتے۔ میر صوبیدارخان نے جب اسلام کوٹ فرار ہوکر بغاوت کی تو وہ روانگی کے وقت دوسروں سے پیچھے اور تنہا تھا۔ ایسے بدگمان اور خطرناک آئین کے تحت حکومت کرنا قابل رشک نہ تھا۔ مراد علی نے ایک دن کھلے دل سے مجھے بتایا کہ حکمرانوں کے سر پر شیروں جیسا وزنی بوجھ ہوتا ہے اس وزن کا اندازہ فقط حکمران ہی کرسکتے ہیں"۔

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سندھ پر انگریزوں کے قبضے میں انکی صلاحیتوں کا کوئی خاص دخل نہیں تھا۔ بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ تالپور حکمرانوں کی آپس میں بداعتمادی اور مقامی آبادی جن میں اکثر ہندوؤں کی تھی کے بارے میں ان کے مخالفانہ رویے تھے۔ جیمز برنس کتاب کے صفحہ 51 -52 پر لکھتے ہیں ؛

"جب میں سندھ سے روانہ ہوا تو میر صاحبان نے اپنی دو گھڑیاں مجھے مرمت کے لیے دیں۔ اتفاق سے ان کے ایک ملازم نے کہا کہ بھج (ہندوستان کا ایک علاقہ) میں ایک ہندو ہے جو گھڑیوں کی مرمت کا ماہر ہے۔ یہ سن کر انھوں نے گھڑیاں میرے حوالے کرنے سے اس وقت تک انکار کیا، جب تک میں نے یہ وعدہ نہ کر لیا کہ یہ ایک بت پرست کے حوالے نہ کی جائیں گی۔ ایک نہایت ہی قیمتی تلوار میر صاحبان نے سوغات کے طور پر مجھے دی جس پر ان کے ایک وزیر نے لکھا تھا جس پر وہ فخر بھی کرتے تھے۔ اس تحریر کا متن یہ تھا کہ کاش اس تلوار کی دھار سے ایک لاکھ ہندو مارے جائیں۔"

جیمس برنس کی کتاب میں ایسی بے شمار معلومات موجود ہیں جس سے اس وقت کے میروں کے طرز حکومت کے بارے میں انکشافات ہوتے ہیں۔ تحقیق کا دامن محدود نہیں، اس حوالے سے جانچ کی بہت زیادہ گنجائش ہے امید ہے کہ تاریخ کے طالب علم ہماری معلومات میں مزید اضافہ کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Mudassir Ali May 15, 2014 06:28pm
Very intetesting. Thanks Balouch Saheb.
zulfiqar May 15, 2014 07:23pm
Akhtar Baluch always writes good,historical,archies stories,i read its,now this is a story me also to go visit in sindh archies era.
Roohan Ahmed May 17, 2014 09:27pm
I always love to read your blogs Mr. Akhter Baloch as you write about the history of our city & its heritage. I haven't thought of Mir Sahiban's 'Extra Ordinary Wisdom', as you wrote 'They wanted to kill 100K Hindus in a clust of sword.
یمین الاسلام زبیری May 19, 2014 12:38am
کیسا اچھا مضمون ہے، تاریخ کا سبق ہے، جو کچھ نقسان ہم ایک دوسرے کو پہنچا سکتے ہیں وہ باہر والا نہیں پہنچا سکتا. سچ ہے اتفاق میں ہی برکت ہے.