روزگار کا انسانی پہلو

19 جون 2014
بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے اور بیروزگار شخص اپنا وقت گزارنے کے لئے جوۓ اور نشے کی لت میں پڑ جاتا ہے-
بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے اور بیروزگار شخص اپنا وقت گزارنے کے لئے جوۓ اور نشے کی لت میں پڑ جاتا ہے-

آج پاکستان کی اکانومی کو درپیش نمایاں چیلنجز میں سے ایک، تیزی کے ساتھ بڑھتی افرادی قوت کے لئے آمدنی حاصل کرنے کے مواقع مہیا کرنا ہے- ملک کی آبادی دو فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر سال تیس لاکھ افراد بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہیں لہٰذا ظاہری سی بات ہے کہ سب سے پہلی ترجیح روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے- تاہم مشکل سے تقریباً صرف سات لاکھ روزگار کے مواقع سالانہ پیدا ہو رہے ہیں-

ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر، واشنگٹن کے مچل کگلمین کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی وجہ سے نوجوان افراد نے بڑی تعداد نے شہروں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے ملک میں بہت تیزی سے اربنائزیشن ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں خود اس کی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں-

بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے- روزگار کی ضرورت صرف اس لئے نہیں کہ اس سے لوگوں اور ان کے خاندانوں کے لئے ذریعہ معاش مہیا ہو بلکہ اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ اگر لوگوں کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہو گا تو وہ بے اطمینانی کے ڈھیر میں تبدیل ہو سکتے ہیں- بیروزگاری کسی شخص سے اس کی خود اعتمادی چھین لیتی ہے اور چونکہ وہ اونرشپ کے احساس سے محروم کر دیا جاتا ہے لہٰذا اس کا سماجی و اقتصادی ترقی میں کوئی اسٹیک نہیں رہتا جیسا کہ کسی محفوظ اور مستقل روزگار کے حامل شخص کو حاصل ہوتا ہے-

بیروزگاری کے اس پہلو کو اب تک پاکستان میں سمجھا ہی نہیں جا سکا حالانکہ اس کے تشدد، دہشت گردی اور سیاسی بے چینی کے ساتھ ریلیشن شپ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے-

بیروزگاری کے کچھ پہلوؤں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے-

بامنافع روزگار کے کسی شخص کی فلاح سے تعلق کا پہلی بار مجھے تب سمجھ میں آیا تھا جب میں نے اسی کی دہائی میں سویڈن کے ایک لیبر ٹریننگ سینٹر کا دورہ کیا تھا- اس وقت وہاں پر سوشل ڈیموکریٹس کی گرفت بہت مظبوط تھی- حکومت اکانومی کو نہایت باریک بنی سے مانیٹر کر رہی تھی جب کہ ایک آنکھ لیبر مارکیٹ پر بھی رکھی ہوئی تھی- اگر ایک سیکٹر سکڑتا اور ورکرز کو فارغ کرنا پڑتا تو دوسرا سیکٹر پھیلنے لگتا اور پھر اسے لیبر کی سپلائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا- یہ وقت ہوتا جب حکومت دخل اندازی کرتی اور لوگوں کو ان کاموں کی ٹریننگ آفر کی جاتی جن کی زیادہ ضرورت ہوتی-

وہ افسر جس نے مجھے بریف کیا تھا اس نے روزگار کے معاشی پہلو کے بجائے زیادہ توجہ اس کے انسانی نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں پر رکھی تھی- آج پچیس سال بعد، جب میرا حال ہی میں خیرو ڈیرو (ضلع لاڑکانہ) جانا ہوا جہاں علی حسن منگی میموریل ٹرسٹ (اے ایچ ایم ایم ٹی) وہاں کے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے کام کر رہا ہے، تو بیروزگاری کا یہ پہلو مجھے شدت کے ساتھ دوبارہ یاد آیا-

مجھے بتایا گیا کہ بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے اور بیروزگار شخص اپنا وقت گزارنے کے لئے جوۓ اور نشے کی لت میں پڑ جاتا ہے- اس کا بلآخر نتیجہ ایڈکشن ریٹ میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے جبکہ اکانومی کی پروڈکٹیوٹی بھی کم ہو جاتی ہے- اس ٹرسٹ کو نہایت جانفشانی کے ساتھ چلانے والے نوین منگی نے مجھے اس نظریے کا جائزہ لینے میں مدد دینے کے لئے مردوں کے گروپ سے متعارف کرانے کی پیشکش کی- ایک شام مجھے تقریباً تمام ایج گروپ سے تعلق رکھنے والے پندرہ آدمیوں سے ملاقات کرنے کے لئے بلایا گیا-

میں نے ان سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے جاب اسٹیٹس کی تفصیل بتانے کے لئے کہا- ان میں سے دس افراد نے کہا کہ وہ بیروزگار ہیں- مزید کریدنے پر مجھے احساس ہوا کہ اصل میں تو وہ انڈرامپلائڈ (UNDEREMPLOYED) ہیں جو کہ کبھی کبھار ملنے والے مختلف کام کرتے رہتے ہیں- تاہم ان کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ اپنے خاندانوں کا پیٹ بھر سکیں- دوسروں کے پاس بھی کچھ نہ کچھ جابز موجود تھیں پر وہ ان سے مطمئن نہ تھے- ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اتنا زیادہ کام نہ ہو جو انہیں دن بھر مصروف رکھ سکتا-

ایک تو ہیلتھ ورکر تھا جسے ضرورت کے وقت مدد کے لئے بلایا جاتا ہے جیسے کوئی ویکسینیشن مہم اور پھر اسی حساب سے اسے ادائیگی بھی کی جاتی ہے- دو افراد دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں اور انہیں روز اپنی قسمت روز آزمانی پڑتی ہے اور کبھی کبھار انہیں کئی کئی دنوں تک کام نہیں ملتا- سرکاری آفسوں میں کام کرنے والے دو کلرک اور سرکاری اسکولوں کے دو ٹیچر شاید کم سے کم کام کرتے ہیں-

اس کے بعد بچے ایک وہ فارم ورکر جو اپنے تین ایکڑ کے پلٹ پر کاشتکاری کرتا ہے اور ایک سیلزمین جو کہ پلاسٹک بیچتا ہے اور بس ان ہی دونوں نے باروزگار ہونے کا دعویٰ کیا- جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ ان کی اپروچ میں موجود بے حسی اور حوصلہ مندی کا فقدان تھا- ان کا کہنا تھا کہ امید نے انھیں زندہ رکھا ہوا ہے- جب ان سے کہا گیا کہ جس چیز کی وہ امید کر رہے ہیں اس کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ان بہتر دنوں کے انتظار میں ہیں جب ان کی پارٹی اقتدار میں آئے گی- وہ کس پارٹی کے انتظار میں تھے؟ انہوں نے پی پی پی کا نام لیا- ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا جب انہیں بتایا گیا کہ سندھ میں 2008 سے اقتدار پی پی پی ہی کے پاس ہے-

ایسا لگتا ہے کہ بیروزگاری کا تعلق اسٹیٹ آف مائنڈ یعنی ذہنی حالت سے جڑا ہے- کسی اقتصادی بوم کی غیر موجودگی کی وجہ سے مایوسی سرایت کر گئی ہے- جو تھوڑی بہت ہمت اور صلاحیت باقی تھی اسے بھی نشے اور جوۓ نے تباہ کر دیا ہے- تعلیم کی کمی اور سماجی و اقتصادی جمود نے – جس کے لئے حکومت کلی طور پر ذمہ دار ہے-- معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے-

اس کے برخلاف عورتیں، جو کہ صدیوں سے جاگیردارانہ اور وڈیرانہ سماج میں کچلتی آئی ہیں، اس کے باوجود زیادہ باعمل اور متحرک ہیں- بہت سی کمیونٹی ورکرز اور ٹیچرز بن گئی ہیں- دوسروں نے اے ایچ ایم ایم ٹی کی مائکروکریڈٹ اسکیم کی مدد اپنے گھروں میں دستکاری کے بزنس قائم کر کے اپنی زندگیوں کو بہتر بنایا ہے- روزگار کے حوالے سے عورتوں کی اپروچ زیادہ مثبت ہے- 2011 سے اب تک، 15,000 روپے فی کس کے حساب سے 34 قرضے جاری کئے جا چکے ہیں اور ان میں سے 14 نے قرضے لوٹا بھی دیے ہیں- بقیہ میں سے کوئی بھی ڈیفالٹر نہیں جس سے پراجیکٹ کی کامیابی کی نشاندہی ہوتی ہے-

ضرورت اس بات کی ہے کہ مردوں کو روزگار کی طرف راغب کیا جائے- لینڈ ریفارمز اور چھوٹی زرعی صنعتوں سے نہ صرف آمدنی بڑھانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ان سے بیروزگاروں میں بھی حوصلہ پیدا ہو گا-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں