پشاور : کس کو ساتھ لے جانے اور کسے پیچھے چھوڑ جانے کا فیصلہ بہت مشکل تھا، یہ میران شاہ کے گاﺅں دتہ خیل میں سب سے آخر میں نکلنے والے شخص خلیل وزیر کا کہنا تھا۔

انھوں نے اس علاقے کو چھوڑنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ وہ ان افراد کا خیال رکھنا چاہتے تھے جو علاقہ چھوڑنے کیلئے دی گئی تین روزہ مدت کے دوران جا نہیں سکے تھے۔

خلیل وزیر ان بزرگ افراد کے حوالے سے کافی فکرمند تھے۔

انھوں نے اپنی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ بچوں اور خواتین کو ٹرکوں پر مرغیوں کی طرح لادا گیا، جبکہ متعدد افراد اپنے بزرگ والدین کو پیچھے چھوڑ گئے کیونکہ ٹرکوں میں دم گھٹنے سے ان کی موت کا خطرہ تھا۔

شمالی وزیرستان ایجنسی کے رہائشی جو افراتفری میں اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے، وہ اپنے پیچھے مویشی اور خوراک وغیرہ کا ذخیرہ بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں، مگر ایسے بزرگ افراد جو چلنے پھرنے سے معذور ہیں انہیں زیادہ تکلیف کا سامنا ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں سے الگ ہوگئے ہیں یا انہیں گنجائش سے زیادہ بھرے ٹرک میں شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خلیل وزیر شمالی وزیرستان کے ایک فلاحی ورکر ہیں اور ان کا خاندان 120 افراد پر مشمتمل ہے، وہ ہمیشہ علاقے میں حالات معمول پر آنے کی امید ظاہر کرتے رہے ، وہ 1500 رضاکاروں اور بلڈ ڈونرز پر مشتمل ایک فلاحی ادارے شمالی وزیرستان ایکشن کمیٹی کے صدر بھی ہیں ۔ پہلے وہ دیگر افراد کی امداد کرتے تھے مگر اب انہیں خود مدد کی ضرورت ہے۔

اپنے خاندان کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کی ہر تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ علاقے سے نکلنے سے دتہ خیل گاﺅں کے رہائشیوں میں دہشت پھیل جائے گی، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے موجودہ صورتحال سے مفاہمت کرلی۔

زندگی میں وہ کبھی اتنے کم حوصلہ نہیں رہے تھے جتنا اپنے خاندان سے الگ ہونے پر خود کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ اب انھوں نے یہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم دیگر افراد کے مقابلے میں خلیل وزیر نے پہلے اپنی 60 سالہ ذیابیطس کی شکار والدہ کو کچھ رشتے داروں کیساتھ افغانستان بھیجنے کا انتظام کیا۔

ایک منی ٹرک کے ڈرائیور نے ان کے خاندان کو میران شاہ سے بنوں پہنچانے کا معاوضہ 80 ہزار روپے لیا، اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ دینے والے خلیل وزیر نے اپنے قلعہ نما گھر کے داخلی دروازے پر تالہ لگایا اور میران شاہ سے جمعے کی دوپہر کو نکل کر ہفتے کی صبح سیدگئی چیک پوسٹ پر پہنچے۔

خلیل وزیر کا کہنا تھا کہ متعدد معمر مرد و خواتین تاحال وہاں موجود ہیں، وہ سفر نہیں کرسکتے یا وہ اپنی جائیدادوں اور مویشیوں کی حفاظت کیلئے رک گئے ہیں، جبکہ کچھ اتنے بوڑھے اور کمزور ہیں کہ سفر کر ہی نہیں سکتے۔

انھوں نے اپنی بیمارہ والدہ کو تو افغانستان منتقل کردیا مگر لاجسٹک مسائل کی وجہ سے وہ اپنے مویشیوں اور دیگر کو ساتھ نہیں لاسکے۔ کاشت کا سیزن حال ہی میں ختم ہوا تھا اور اناج کا ذخیرہ بھی پیچھے ہی رہ گیا۔ وہ جانتے ہیں کہ اس مشکل وقت کے خاتمے کے بعد بھی اب زندگی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔

مبصرین اور کچھ اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے موجودہ نقل مکانی کو ایک انسانی المیہ قرار دیا ہے، قبائلی علاقوں میں ماضی کے فوجی آپریشنز کا نتیجہ بڑے پیمانے پر تباہی کی صورت میں نکلا تھا۔

وزیرستان کے افراد کو درپیش اس مشکل صورتحال کا خاتمہ کب تک ہوگا اس بارے میں ابھی تک کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔

اٹھارہ جون کو آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے قبل سیکیورٹی فورسز نے بائیس مئی کو میران شاہ کے قریب میٹچس کیمپ گاﺅں کے قریب بمباری کی تھی جس میں حکام کے دعویٰ کے مطابق متعدد دہشتگرد مارے گئے تھے، مگر مقامی اور آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ اس شیلنگ سے بزرگ افراد بھی ہلاک ہوئے، جبکہ اپنی جائیدادوں کی حفاظت کیلئے گھروں میں مقیم کچھ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

سیکیورٹی فورسز کو فاٹا اور خیبرپختونخواہ میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کو ایک دہائی سے زائد عرصہ ہوگیا ہے. اس دوران نو بڑے آپریشن کئے گئے، جن میں 2008ءکو باجوڑ ایجنسی میں ہونے والا آپریشن شیردل اور 2009ءجنوبی وزیرستان ایجنسی میں ہونے والا راہ نجات بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنا۔

فوج 2005ءسے شمالی وزیرستان میں موجود ہے اور اس کا وہاں انٹیلی جنس اور ہوائی نگرانی کا بڑا نظام بھی موجود ہے۔ یہ رپورٹس بھی موجود ہیں عسکریت پسند آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے قبل ہی میران شاہ، میرعلی اور ارگرد کے علاقوں سے نکل گئے تھے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق سیکیورٹی کو میران شاہ اور میرعلی میں ممکنہ طور پر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جو مقامی اور غیرملکی عسکریت پسندوں کے اہم مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ افغان سرحد سے ملحق جنگل سے گھری شوال کی پہاڑیاں بھی عسکریت پسندوں کا ٹھکانہ سمجھی جاتی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فاٹا کے عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کا انسانی ہمدردی کے حوالے سے ریکارڈ زیادہ اطمینان بخش نہیں، جبکہ انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی نے خطے میں عسکریت پسندوں کے آغاز کے بعد سے فوجی افسران کیلئے کئی کورسز اور ورکشاپس کا انعقاد کروایا ہے۔

فاٹا کی چار ایجنسیوں میں عسکریت پسندی کے نتیجے میں عام شہریوں کے 60 ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا ہے، جبکہ فضائی حملوں اور شیلنگ میں متعدد عام افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں اور چھوٹے بازار ختم ہوگئے ہیں۔

فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ نجی جائیدادوں کی بحالی نو اور دوبارہ تعمیر کیلئے 35 ارب روپے سے زائد کی ضرورت ہوگی۔

سیکیورٹی فورسز کے قوانین بھی اندھا دھند حملوں کی اجازت نہیں دیتے، تاہم بڑے پیمانے پر تباہی اس وقت ہوتی ہے جب اصول و ضوابط کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات کے قانون کے تحت فریقین کو شہریوں اور شہری ملکیت کو الگ رکھنا چاہئے، کیونکہ شہری آبادی کو استثنیٰ حاصل ہے۔

شمالی وزیرستان کے افراد پہلے ہی کافی مشکلات کا شکار ہیں، وہاں عسکریت پسندوں کی موجودگی، سیکیورٹی فورسز کی کارروائی اور امریکی ڈرون حملوں نے وزیرستان کو جہنم بنا دیا ہے۔

لوگوں کے اندر خوداعتمادی ختم ہوچکی ہے، تاہم ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی انتظامیہ آپریشن ضرب عضب میں قوانین کا خیال رکھ کر وہاں کے رہائشیوں کے دل و دماغ جیت سکتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jun 24, 2014 11:52am
ہم روز صبح بیدار ہوتے ہی روز ہماری زندگی کی ہر صبح ایک جیسی نہیں ہوتی کبھی کچھ بگڑ جاتا ہے اور کبھی کچھ درست ہو جاتا ہے ۔لیکن ایک ایسا علاقہ جو کافی عرصے سے بحران زدہ ہے جہاں کئی فوجی آپریشن کئے گئے ہیں اگرچہ وہ کئے اس لئے ہی گئے ہیں کہ وہاں کے عوام کے لیے بہتری پیدا کی جا سکے لیکن اگر میں یہ کہوں کہ وہاں کے لوگوں کے کی نقل مکانی کے لیے کبھی بھی بہتر انتظامات نہیں کئے گئے تو یہ غلط نہ ہو گا ، لوگوں کو نئے سرے سے بسانا تو الگ رہا آپ ایک شخص کے اندر سے اس کے دل سے اسکی چار دیواری کے چھٹ جانے کا غم ہی محسوس نہیں کر سکتے ، ہم ہر کام فوج پر کیوں ڈال دیتے ہیں ایک طرف ہمارے بہادر سپاہی بھوک پیاس کی صعوبتیں برداشت کر کے دہشتگردوں کا مقابلہ کریں دوسری جانب ان سے یہ بھی توقع ان سے ہی رکھی جائے کہ اب ایسے بے گھر افراد کو آباد بھی یہ کریں ۔ جناب یہ سب کام آپریشن شروع کرنے سے پہلے کے تھے جب اللے تللوں میں وقت ضائع کیا گیا ، فوج کا کوئی قصور نہیں وہ اپنا فرض خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے میں نے خود میڈیا پر فوجیوں کو زخمیوں کو پانی پلاتے بھی دیکھا ، لوگوں کو محفوظ مقام تک پینچاتے بھی دیکھا ، ۔ یہ حکومت کا ، نجی اداروں کا کام تھا کہ وہ پہلے سے ہی ان افراد کی آباد کاری کا انتظام کرتے ، میں خود ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے سوال کرتی ہوں کہ اب بلند و بانگ دعوی کرنے والی این جی اوز کہاں ہیں ؟ کیا انھیں بے کس اور مجبور بچے اور عورتیں دکھائی نہیں دے رہے ؟ کیا انسانی خدمت کا جذبہ صرف پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے وقت دل میں ابھرتا ہے ؟