ساﺅ پاﺅلو : اچانک ہی ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم کراچی میں ہوں۔

برازیل کے ہر گول پر ساﺅ پاﺅلو میں رات کی تاریکی پرشور آتشبازی اور فائرکریکرز کی روشنی سے منور ہوجاتی۔

یہ بالکل ویسا ہی منظر تھا جیسا پاکستان میں کسی بڑے کرکٹ میچ کے دوران ہر چھکے پر تماشائیوں کے جوش و خروش کے باعث نظر آتا ہے۔

اگرچہ یہاں پاکستان کی کامیابی پر ہونے والی ہوائی فائرنگ تو نظر نہیں آئی مگر مقامی افراد نے ڈرمز کو بجا کر جشن منایا۔ ڈرمز کا شور بالکل اسی طرح آپ کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا تھا جیسا پاکستان میں ہوائی فائرنگ کے دوران محسوس ہوتا ہے۔

برازیلین عوام فٹبال کے حوالے سے اتنے ہی پرجوش ہیں جتنے پاکستانی کرکٹ کے بارے میں، اور یہ جوش و جذبہ اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب پیر کو برازیلیا میں گروپ کے آخری گروپ میچ میں برازیل کا ٹکراﺅ کیمرون سے ہوا۔

میزبان ملک پہلے ہی اگلے راﺅنڈ میں رسائی حاصل کرچکا تھا مگر کیمرون کے خلاف ایک کے مقابلے چار گولوں سے فتح نے اسے گروپ میں ٹاپ پوزیشن پر پہنچا دیا اور گروپ 16 میں اب اس کا مقابلہ چلی سے ہوگا۔

برازیل کے سب سے بڑے شہر ساﺅ پاﺅلو میں رات کو فتح کا جشن بالکل اسی طرح منایا گیا جیسا کراچی میں پاکستان کی کامیابی پر منایا جاتا ہے۔

تاہم برازیلین شائقین نے اپنی کچھ توانائی بڑی پارٹی کے لئے بچا کر رکھی ہے کیونکہ انہیں توقع ہے کہ تیرہ جولائی کو برازیل ورلڈکپ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

مگر اس کے باوجود ساﺅ پاﺅلو میں کیمرون کے خلاف نیمار کے شاندار کھیل کی بدولت اپنی ٹیم کی کامیابی پر پرستار جھومتے ہوئے نظر آئے۔

نیمار اس ورلڈکپ کے پوسٹر بوائے ہیں اور امکان ہے کہ ان کی شخصیت کو طویل عرصے تک برازیلین عوام بھول نہیں سکیں گے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شاہد آفریدی طویل عرصے سے پاکستانی کرکٹ شائقین کے ہیرو چلے آرہے ہیں۔

ساﺅ پاﺅلو کی انتظامیہ کو جنوبی امریکا کے سب سے بڑے شہر میں اسی طرح کے ٹریفک جام کا خدشہ تھا جیسا برازیل اور میکسیکو کے درمیان مقابلے دوران شائقین کی جانب سے گھر واپس جانے کی جلدی کے باعث دیکھنے میں آیا۔

انتظامیہ نے پیر کو عام تعطیل کا مطالبہ کیا تھا تاہم ساﺅ پاﺅلو کی سٹی کونسل نے اسے مسترد کردیا تھا۔

انتظامیہ کو یہ فکر لاحق تھی کہ ساﺅ پاﺅلو میں واقع ایرینا کورینٹیانز نامی اسٹیڈیم میں چلی اور نیدرلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے آخری گروپ میچ کے دوران ان ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی موجودگی سے ٹرانسپورٹ کے مسائل میں اضافہ ہوگا، یہ میچ برازیل کے میچ سے دو گھنٹے قبل مقامی وقت کے مطابق تین بجے سہ پہر کو ختم ہوا تھا۔

تاہم اس وقت اچھی خبر سامنے آئی جب شہر کے میئر نے اعلان کیا کہ ضلعی ملازمین اور سرکاری اسکولوں کے طالبعلم پیر کو چھٹی کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔

بینک، دکانیں اور کارخانوں وغیرہ نے بھی اپنا کاروبار دو گھنٹے پہلے بند کرنے پر رضامندی ظاہر کی تاکہ ملازمین کو میچ سے قبل گھر جانے کا وقت مل جائے اور کسی بڑے ٹریفک جام سے بچا جاسکے۔

اور جیسے ہی برازیل نے کامیابی حاصل کی،کچھ پرستار اپنی گاڑیوں پر جشن منانے کے لئے باہر نکل آئے، ان کی گاڑیوں کے اوپر برازیلین پرچم لہرا رہے تھے۔

میچ کے دوران جب نیمار نے پہلا گول اسکور کیا تو مختلف کیفوں اور بارز میں وہاں موجود میچ سے لطف اندوز ہونے والے پرستاروں کے شور سے اسی طرح گونج اٹھے جیسے کراچی میں آفریدی کے کسی چھکے پر دیکھنے میں آتا ہے۔

تاہم ان کی خوشی اس وقت کم ہوگئی جب کیمرون کی جانب سے جوئیل ماتپ نے گول اسکور کرکے میچ برابر کردیا، اور بالکل ایسا سناٹا چھاا گیا جیسا کراچی میں آفریدی کے آئوٹ پونے پر چھاتا ہے، مگر پھر لگاتار تین گولز نے مقامی افراد کو خوشی سے پاگل کردیا۔

بارہ جون کو برازیل اور کروشیا کے ہائی پروفائل افتتاحی میچ سے گھنٹوں پہلے، ایرینا کورینٹیانز کے باہر حکومت مخالف مظاہرین نظر آئے تھے، مگر اب ساﺅ پاﺅلو میں جشن کا ہی راج نظر آتا ہے۔

رقص میں مصروف ایک پرستار کے مطابق 'جب بھی برازیل جیتے گا وہ وقت پارٹی کا ہوگا'۔

مظاہرین حکومت کی جانب سے ورلڈکپ کی میزبانی پر گیارہ ارب ڈالرز خرچ کرنے پر مشتعل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ عوامی انفراسٹرکچر پر خرچ کی جانی چاہئے تھے۔

ایرینا کورینٹیانز سے ملحق موجود بینکوں میں سے ایک کی دیوار پر یہ پیغام سفید پینٹ سے لکھا گیا ہے ' فیفا گھر واپس جاﺅ'۔

تاہم اگر برازیل کی کامیابی کا سلسلہ جاری رہا تو یہ غصہ بھی ختم ہوجائے گا۔

اور جہاں تک کراچی کی بات ہے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا ایک علاقہ بھی اس جشن میں شریک ہے اور ہے لیاری، وہ جگہ جو فٹبال سے اپنی محبت کے باعث منی برازیل کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں