لندن : برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرم کی شرح میں ایک سال کے دوران تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور روایتی مسلم ملبوسات استعمال کرنے والی خواتین عموماً گلیوں میں حملے اور دیگر برے سلوک کا نشانہ بن رہی ہیں۔

اس بات کا انکشاف سروے میں کیا گیا ہے جس کے مطابق اس تشدد میں اضافے کی وجہ 2013ءمیں ایک برطانوی فوجی لی ریگبی کی دو مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں ہلاکت کو قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد سے نفرت انگیز حملوں کی شرح میں چار سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ سروے ٹیسسائیڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا اور ان کا ماننا ہے کہ مسلم برادریوں کا پولیس پر عدم اعتماد اور نفرت انگیز جرائم کی شکایت درج نہ کرانا اس مسئلے کی حقیقی وجوہات ہیں، کیونکہ اسلام مخالف بیشتر واقعات جیسے آن لائن بدزبانی، شدید تشدد اور دیگر جرائم کی شکایت درج نہیں ہوتی اور ملزم سزاﺅں سے محفوظ رہتے ہیں۔

یہ رپورٹ اس وقت شائع ہوئی جب گزشتہ ماہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ایک طالبہ کو برطانیہ میں قتل کردیا گیا اور اس کی وجہ اس خاتون کا عبایہ کا استعمال بنا۔

تحقیقی ٹیم میں شامل میتھو فیلڈ مین نے بتایا کہ اگرچہ عام سطح پر نفرت انگیز جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے مگر مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، اور ان ملزمان کی اکثریت 30 سال سے کم عمر مردوں کی ہے بلکہ کچھ جگہوں پر تو دس سال کی عمر کے بچے بھی حملہ آور کی حیثیت سے شناخت کئے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ مسلمانوں پر حملوں کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیم ٹیل ماما کے مطابق 54 فیصد واقعات میں خواتین کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ انھوں نے اسکارف، نقاب یا ایسے کپڑے پہن رکھے تھے جس سے واضح ہوجاتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔

میتھیو فیلڈ مین نے کہا کہ ان اعداد وشمار سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ خواتین مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں کی رپورٹ کرانے میں زیادہ آگے ہیں یا یہ نقطہ نظر بھی موجود ہے کہ مسلم خواتین زیادہ نمایاں ہدف سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان کے روایتی ملبوسات ان کی نشاندہی کردیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں