وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے بارے میں عام نظریہ یہی ہے کہ یہ بین الاقوامی دہشتگردی کا مرکز ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان عسکریت پسندی سے متاثر ہوں گے، بلکہ یہ خطرہ عالمی برادری کے سروں پر بھی منڈلانے لگا ہے، جس پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے کہ فاٹا کی قسمت کیا ہوگی؟

فاٹا کو اس وقت آئینی ترامیم کے تحت خصوصی قبائلی علاقے کی حیثیت حاصل ہے جو 27 ہزار 220 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں درجن بھر پشتون قبائل رہائش پذیر ہیں اور اسے سات قبائلی ایجنسیوں باجوڑ، مومند، خیبر، کرم، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں تقسیم کیا ہے، جن میں چھ کی سرحد نیم قبائلی یا آیف آر ایریاز سے ملتے ہیں، جو ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، آیف آر ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسمعیل خان ہیں۔


لگ بھگ فاٹا کی تمام ساتوں ایجنسیوں اور ملحقہ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی اور اس کے ردعمل میں فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔


فاٹا کی قسمت کے حوالے سے بحث کا آغاز وفاقی وزیر برائے ریاستیں و سرحدی علاقہ جات (سیفران) جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کے اس دعویٰ کے بعد ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت فاٹا کو صوبے کی حیثیت دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

بائیس اپریل کو ایک کانفرنس سے خطاب میں انکا کہنا تھا " حکومت قبائلی علاقہ جات کو گلگت بلتستان طرز جیسی انتظامی حیثیت دینے پر کام کررہی ہے"۔

وہ اس سے پہلے یہی تجویز فروری میں بھی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کے اجلاس میں پیش کرچکے تھے۔

وفاقی وزیر کے اس موقف نے اس خیال کو تقویت دی کہ پاکستانی حکومت پر اس کطے کو مرکزی دھارے پر لانے کا بہت زیادہ دباﺅ ہے اور یہاں کی پسماندگی اورقبائلیوں کے پرتشدد رجحانات پر قابو پانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔

مغربی سفارتی حلقوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی جانب سے پاکستانی حکومت پر دباﺅ ڈالا جارہا ہے کہ فاٹا کے موجود انتطامی سیٹ اپ میں تبدیلیاں لائی جائے، یہ اقدام ان کی نظر میں خطے میں عسکریت پسندی کی روک تھام میں اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے۔

ایک مغربی سفارتکار نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ قبائلی افراد ایک نیا عمرانی معاہدہ اور نیا اقتصادی و اختیارات کا اسٹرکچر چاہتے ہیں کیونکہ طالبان عسکریت پسندی اور اس خطے میں جاری فوجی آپریشن سے پرانے انتظامی اور قانونی گورننگ نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ فاٹا پر طرز حکومت کے حوالے سے طرح طرح کی آوازیں سامنے آرہی ہیں۔ احسان دوار شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں، وہ وضاحت کرتے ہیں کہ مقامی اسٹیک ہولڈرز چار حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، ایک کا مانا ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخواہ کے ساتھ ضم کردینا چاہئے، دوسرا حلقے کا اصرار ہے کہ فاٹا کو ایک علیحدہ صوبہ بنایا جائے، تیسرے گروپ کا کہنا ہے کہ ایک فاٹا کونسل قائم کی جائے جبکہ آخری گروپ مطالبہ کرتا ہے کہ موجودہ صورتحال کو ہی برقرار رکھا جائے۔

چار طبقہ فکر اور ان کی تجاویز

سیاسی جماعتیں، فاٹا سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ادارے اور قبائلی بزرگ سب فاٹا کے موجودہ انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں، مگر وہ اس تبدیلی کے حوالے سے اختلاف رائے کا شکار نظر آتے ہیں۔

یہ تجویز کہ فاٹا اور کے پی کے کو ضم کردیا جائے کو پختون قوم پرستوں کی حمایت حاصل ہے۔ قبائلی بزرگ بھی اس کے حامی ہیں، احسان دوار بتاتے ہیں کہ پختون قوم پرست اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں تمام پشتون خطوں کو متحد کیا جانا چاہئے۔

خیبرایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک پشتو شاعر اکبر وطن یار بتاتے ہیں کہ آخر فاٹا اور کے پی کے کیونکہ قدرتی طور پر ایک جغرافیائی یونٹ ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ ایک بڑے صوبے کے طور پر ہمارے لوگوں کو قومی اور بین الاقوامی معاملات میں زیادہ اثررسوک ملے گا، دنیا بھر کے لوگ اپنے تقسیم شدہ حصوں کو ملانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں مگر کچھ قوتیں جان بوجھ کر پختونوں کو تقسیم کرو اور حکومت کرو والے سامراجی اصول پر عمل کرتی ہیں۔

عملی طور پر دیکھ جائے تو قبائلی عوام کے لیے ہر شعبے جیسے صحت، تعلیم، تجارت اور دیگر سہولیات تک رسائی کے پی کے کے قریبی شہری مراکز سے ہی ممکن ہے، ہر ایجنسی سے بڑی تعداد میں لوگ اور قبائل شہروں کے نواحی میں مقیم ہیں، ڈیرہ اسمعیل خان اور ٹانک جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے متعدد قبائل کا گھر سمجھے جاسکتے ہیں، جبکہ بنوں شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کا دوسرا گھر مانا جاتا ہے۔ اسی طرح مومند سے بڑی تعداد میں لوگ روزگار کے حصول کے لیے چارسدہ اور پشاور کا رخ کرتے ہیں اور یہی مستقل طور پر بس جاتے ہیں۔

اسی طرح قبائلی علاقوں کی انتظامیہ بھی فاٹا سیکرٹریٹ کو پشاور سے ہی چلارہی ہے۔ تاریخی طر پر دیکھا جائے تو خیبر، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان ایجسنیوں کو پشاور، ہنگو اور ٹانگ سے کنٹرول کیا جاتا رہا تھا۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے اس تجویز کی حمایت کا اعلان کیا، اے این پی کی مرکزی رہنماءبشری گوہر کا کہنا تھا کہ پارٹی آئین میں فاٹا کو کے پی کے کا اٹوٹ انگ قرار دیا گیا ہے اور اٹھارویں آئینی ترمیم میں اے این پی نے آرٹیکل 246 اور 247 کو کالعدم قرار دینے کی تجویز دی تھی تاکہ قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کیا جاسکے۔

تاہم انکا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی وہاں کے رہائشیوں کی حمایت اور مرضی کے مطابق ہی ہونی چاہئے۔

دوسری جانب قبائلی سیاست دان علیحدہ صوبے کے قیام کو بہترین آپشن قرار دیتے ہیں۔ متحدہ قبائل پارٹی کے سربراہ حبیب ملک اورکزئی کا کہنا ہے کہ فاٹا کو علیحدہ صوبے کا درجہ دیا جانا چاہئے، جس سے ہمیں اپنے معاملات پر انتطامی اور مالی خودمختاری مل جائے گی اور ہمارے لوگ آزادی سے ترقی کرسکیں گے۔

انکا کہنا تھا کہ کے پی کے 67 سال کے دوران خود اپنے مسائل سلجھانے میں ناکام رہا ہے، اس لیے کسی قسم کے انضمام سے قبائلی افراد کے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔

وہ افراد جو اس دوسرے طبقہ فکر کے حامی ہیں، ان میں وہ بااثر سیاستدان بھی شامل ہیں جو عام انتخابات میں غیر سیاسی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کبھی قبائلی مضبوطی اور کبھی لاکھوں روپے خرچ کرکے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

تیسرے طبقہ فکر کی رائے ہے کہ گلگت بلتستان کونسل کی طرز پر ایک فاٹا کونسل تشکیل دی جائے۔ انکی دلیل یہ ہے کہ فاٹا کے لوگوں کے اپنے منتخب ادارے سے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے خود قابل ہوجائیں گے، جوکہ ابھی ان پر مسلط کئے جارہے ہیں۔

باجوڑ ایجنسی سے پیپلزپارٹی کی جانب سے رکن اسمبلی رہنے والے اخوند زادہ چٹان کا کہنا ہے کہ کونسل کے اراکین کو شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے اور وہ فاٹا کو پاکستان کے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے قوانین مرتب کریں۔

انکا دعویٰ تھا کہ تمام سیاسی رہنماءاور فاٹا کی متعدد کمیٹیوں کے مشران نے متفقہ طور پر گلگت بلتستان طرز کی فاٹا کونسل کی تشکیل پر رضامندی ظاہر کی ہے جو قبائلی علاقوں کی قسمت کا فیصلہ کرے۔

اور آخر میں جو طبقہ فکر بچتا ہے وہ کسی بھی قسم کی تبدیلیوں کا مخالف ہے۔ اس پر اصرار ان افراد کی جانب سے کیا جارہا ہے جو پرانے نظام سے سب سے زیادہ مستفید ہورہے ہیں یعنی ملک، پولیٹیکل ایجنٹ، فاٹا سیکرٹریٹ کے حکام اور آزاد دولت مند سیاسی شخصیات وغیرہ۔

قبائلی مشران اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی کچھ تعداد بھی اس موقف کی حامی ہے اور اس طبقہ فکر کا اصرار ہے کہ مسائل کو اصلاحات کے ذریعے حل کیا جائے۔ فاروق محسود وزیرستان بچاﺅ رائٹس سوسائٹی کے کوآرڈنیٹر ہیں،وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ کچھ عالمی ادارے نئے فاٹا صوبے کے لیے فنڈنگ کررہے ہیں، تاکہ قبائلی عوام کی ثقافت اور روایات کو نقصان پہنچایا جاسکے۔

سیاست کو خوش آمدید###

ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاسی جماعتوں نے مئی 2013ءکے عام انتخابات کے موقع پر فاٹا سے اپنے امیدواروں کو کھڑا کیا، اور یہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) میں ایک ترمیم کے ذریعے ممکن ہوسکا جو اگست 2011ءمیں کی گئی تھی۔

اس ترمیم کے تحت پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ (پی پی اے) 2002ءکا دائرہ فاٹا تک پھیلا دیا گیا اور سیاسی جماعتوں کو وہاں کام کرنے کی اجازت دیدی گئی۔

اس ریگولیشن سے قبل قومی اسمبلی میں فاٹا کے بارہ اور سینیٹ میں آٹھ اراکین آزاد منتخب ہوتے تھے اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے تھے۔ درحقیقت 1996ءمیں بالغ رائے دہی کا قانون متعارف کرائے جانے سے پہلے قبائلی علاقوں میں انتخابات میں مخصوص افراد ہی ووٹ ڈالتے تھے۔

مگر اس بار ایسا نہیں ہوا اور سیاسی جماعتیں اپنی مہم اور ووٹرز کو قائل کرتی نظر آئیں، قبائلی امیدواروں کو پہلی بار ان کی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا، جبکہ بڑی تعداد میں ووٹرز نے فاٹا کے پہلی جماعتی انتخابات میں ووٹ ڈالا۔

اخوند زادہ چٹان کے مطابق اگرچہ گزشتہ سال کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے صرف چار امیدوار ہی کامیاب ہوسکے مگر اس کے مثبت اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں، جبکہ فاروق محسود کا ماننا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے فاٹا کے نوجوان رہنماﺅں کو مواقع ہی میسر نہیں آئے گے بلکہ قبائلی معاشرہ بھی سیاست زدہ ہوجائے گا۔

کیا غیر پشتون فاٹا پر حکومت کرسکے گا؟###

خیبرپختونخواہ کے گورنر کے لیے ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنماءسردار مہتاب احمد عباسی کی تقرری سے ایک نئی قسم کا تنازعہ سامنے آیا ہے۔

قانون کے مطابق کے پی کے کا گورنر فاٹا کے خطے کے امور سنبھالنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لئے روایتی طور پر مانا جاتا ہے کہ گورنر کی قبائلی علاقوں میں مشران سے کافی گہرے تعلقات ہونے چاہئے۔

فروری 2012ءمیں سابق صدر آصف علی زرداری نے باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنماﺅ شوکت اللہ خان کو صوبائی گورنر مقرر کیا تھا، قبائلی مشران اور سیاستدانوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ کے پی کے کا پہلا قبائلی سویلن گورنر وعدے پورے کرنے میں کردار ادا کرے گا۔

مہتاب احمد عباسی کے ناقدین اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ نئے گورنر تو پشتو تک نہیں بول سکتے۔

فاروق محسوس کا کہنا ہے کہ کسی غیر پشتون کو گورنر بنادینا وفاقی حکومت کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے،ان کے بقول قبائلی خطے سے تعلق رکھنے والا گورنر ہی فاتا کے امور کو موثر طریقے سے چلا جاسکتا ہے۔

تاہم حبیب ملک اورکزئی اور اخوند زادہ چٹان کی سوچ مختلف ہے، انکا مانان ہے کہ مہتاب احمد عباسی جو 90ءکی دہائی میں کے ہی کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، کو نواز لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ مضبوط فیصلے کرسکتےہیں۔

اخوندزادہ چٹان کا کہنا ہے کہ فاٹا کے معاملات کو درحقیقت فوج چلاتی ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ سابقہ گورنرز کے پاس اختیار ہی نہیں تھا۔

انہیں توقع ہے کہ ایک سیاسی شخصیت اور وفاق کی حمایت ک باعث مہتاب احمد عباسی فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے نئی پالیسیوں کا نفاذ کرسکیں گے۔

رپورٹ: ضیا الرحمان

تبصرے (0) بند ہیں