مذہب اور برداشت

09 اگست 2014
ہم مذہب ہونا ایک مشترکہ شناخت کی بنیاد تو ہوسکتا ہے لیکن صرف یہی عنصر ایک قوم کی بنیاد نہیں ہوسکتا
ہم مذہب ہونا ایک مشترکہ شناخت کی بنیاد تو ہوسکتا ہے لیکن صرف یہی عنصر ایک قوم کی بنیاد نہیں ہوسکتا

رمضان میں میرے ایک دوست مجھ سے ملنے آئے- میں نے ان سے پوچھا وہ کچھ کھانا یا پینا چاہینگے- میں سمجھتا ہوں کہ میزبان کی حیثیت سے میرا فرض تھا کہ میں ان سے پوچھتا- میری بات سن کر انھیں تعجب ہوا اور انھوں نے مجھے پانی پلانے کے لئے کہا اور بتایا کہ اگرچہ انھیں پیاس لگ رہی تھی کیونکہ وہ بڑی دور سے دھوپ میں چلتے آرہے تھے لیکن پانی مانگتے ہوئے انھین اچھا نہیں لگ رہا تھا- وہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ رمضان کے مہینہ میں پانی مانگیں تو شائد مجھے اچھا نہ لگے-

میں نے اپنے ایک دوست کو یہ واقعہ سنایا- مقصد یہ تھا کہ میں انھیں بتاوں کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کس حد تک سرایت کرگئی ہے کہ ہمیں اپنے رشتوں میں بھی برداشت کی توقع نہیں رہی-

میرے دوست ایک شو روم کے مالک ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ حال ہی میں انھیں بھی ایک ایسی ہی صورت حال سے گزرنا پڑا تھا- انھیں پتہ چلا کہ ایک گاہک جو ان کے شو روم آیا تھا وہ عیسائی تھا- انھوں نے اپنے سیلز مین سے کہا کہ وہ ان کے لئے شربت منگوائے-

گاہک نے انھیں بتایا کہ گو کہ سخت گرمی تھی لیکن ڈر کی وجہ سے وہ کچھ مانگ نہیں رہا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مسلمان اس کو پسند نہیں کرینگے-

گزشتہ سال رمضان میں، ایک گارڈ کو جسے جولائی کی سخت گرمی میں آٹھ سے دس گھنٹوں تک کھڑا رہ کر ڈیوٹی کرنی ہوتی تھی ایک پرجوش ہجوم نے بری طرح مارا پیٹا کیونکہ اس نے روزہ نہیں رکھا تھا اور ڈیوٹی کے دوران پانی پینے کی کوشش کررہا تھا-

کیا مارنے پیٹنے کی وجہ سے ان لوگوں کا ایمان پکا ہوگیا تھا جو اسے پیٹ رہے تھے یا ان لوگوں کا جو اسے پٹتا دیکھ رہے تھے یا ان لوگوں کا جنھوں نے یہ خبر پڑھی ہوگی؟ مجھ پر تو اسکا الٹا اثر ہوا- مجھے شرم آرہی تھی-

میرے ایک استاد کے گھر میں ایک عیسائی ملازم ہے- وہ رمضان کے دنوں میں اسکے لئے خود اپنے ہاتھوں سے روٹی بناتے ہیں- انھیں پسند نہیں کہ ان کا ملازم دن بھر بھوکا رہے اور نہ ہی یہ بات پسند ہے کہ وہ کسی اور سے اس کے لئے روٹی بنانے کو کہیں اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنی ذمہ داری ان کے سر تھوپ رہے ہیں-

رمضان کا احترام کب آمرانہ شکل، سزا اور عدم برداشت میں تبدیل ہوگیا؟ مہمان کی تواضع ضروری ہے- ان کے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے سے میرے مذہبی جذبات کا کیا تعلق ہے؟ ہم خود کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہیں، ہم کیوں اتنے خوفزدہ ہیں کہ رمضان میں دن کے وقت ہم سارے ریسٹوران بند کردیتے ہیں؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ ہم اپنے روزوں کی فکر کریں اور دوسروں کو اپنی فکر کرنے کے لئے چھوڑ دیں؟

غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر ہمارا غصہ بالکل جائز ہے- لیکن جب پاکستان میں احمدیوں کو یا شیعہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں ویسا غصہ نہی آتا- صاف ظاہر ہے کہ ہم اپنے مذہب کو جس طرح پیش کررہے ہیں یا ہم جو قوانین بنا رہے ہیں یا نافذ کررہے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہے-

حال ہی میں چار احمدیوں کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر اپنے مذہب کا پرچار کررہے تھے- لیکن اس دوران، ٹیلی ویژن پر ملک کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی پارٹیوں اور انکی ضمنی پارٹیوں کی جانب سے ہونیوالے تبلیغی پروگراموں سے مشکل ہی سے چھٹکارا ملتا ہے-

اس کا تعلق ہمارے اس خیال سے ہے کہ ہم نے اپنی قوم اور شہریت کا نظریہ کس طرح تشکیل دیا ہے- اس کا تعلق میرے اس گزشتہ کالم سے بھی ہے جس میں میں نے سیاست میں مذہب کے رول پر روشنی ڈالی ہے-

صرف مذہب کو کسی قوم کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا- قران سے بھی یہ بات واضح ہے- تمام پیغمبروں نے، اپنی قوم کی جانب سے ہونیوالی مخالفتوں کے باوجود انھیں اپنی قوم قرار دیا تھا-

عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اگر قوم کی بنیاد کسی مذہب پر ایمان لانے سے ہوتی تو پیغمبر اپنی قوم کے لوگوں کو اس وقت تک اپنی قوم نہ کہتے جب تک کہ وہ ان کی بتائی ہوئی سچائیوں پر ایمان نہ لاتے-

ہم مذہب ہونا ایک مشترکہ شناخت کی بنیاد تو ہوسکتا ہے لیکن صرف یہی عنصر ایک قوم کی بنیاد نہیں ہوسکتا: کلچر، زبان،آباؤ اجداد، جغرافیائی محل وقوع اور اس کے علاوہ بھی دوسری بہت سی مشترکہ خصوصیات ایک قوم کی بنیاد ہوسکتی ہیں-

ایک ایسے معاشرے میں جہاں کی ثقافت میں رنگا رنگی ہو، جہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہوں یا جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہوں ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت دینے کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں-

کیا اس بنیاد پر دو قومی نظریے کے بارے میں سوال اٹھایا جاسکتا ہے؟ یقیناً- لیکن یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور پاکستانیوں کو چاہیئے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اس پر غور کریں- اس کالم میں میں اس مسئلہ پر مزید کچھ نہیں کہونگا-

ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے- ہم نے نہ صرف ایسے قوانین بنائے ہیں جن میں مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز برتا جاتا ہے، انھیں عبادت کرنے اور تبلیغ کرنے کے جو حقوق دیئے گئے ہیں ان میں بھی تفریق موجود ہے اور عائلی اور ذاتی آزادی وغیرہ کے جو قوانین مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں اس میں بھی فرق ہے، بلکہ ہم نے بحیثیت قوم اپنے طرز فکر کو بھی داخلی معاملہ بنا دیا ہے جس کا ثبوت ہماری روزمرہ کی زندگی میں ملتا ہے-

حال ہی میں، پارلیمنٹ کے ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی کہ الکحل کو عیسائیوں کے لئے بھی ممنوع قرار دیا جائے- اگر وہ اخلاقی بنیاد پر دلیل دیتے تو اس مسئلہ پر غور و فکر کیا جاسکتا تھا- لیکن ان کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ مسلمانوں کے لئے شراب نوشی ممنوع ہے اس لیئے ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے بھی اسے ممنوع قرار دیا جائے-

یہ دلیل بار بار دی جاتی ہے- لیکن دلیل مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ یہ ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ نے اسے پیش کرنا مناسب خیال کیا؛ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے شہری اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں- اور وقت کے ساتھ ساتھ اس سوچ کے ساتھ اختلاف کرنے کی گنجائش روز بروز کم ہوتی جارہی ہے-

کیا یہ سوچ ختم ہوسکتی ہے؟

اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں رہا اور ہم عدم برداشت اور مذہبی تعصب کی راہ پر مسلسل بڑھتے جارہے ہیں- لیکن ہم نے جو راہ اختیار کرلی ہے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس میں اصلاح کریں؟ کیا اس مسئلہ پر عوامی بحث نہیں ہونی چاہیئے اور یہ دیکھیں کہ آیا اس غالب سوچ کو کسی نہ کسی طور پر چیلنج کرنا ممکن ہے؟ یہ محض ایک کوشش ہی ہوگی خواہ کتنی ہی ناکافی کیوں نہ ہو-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (6) بند ہیں

آشیان علی Aug 09, 2014 06:42pm
باری صاحب یہ تو تقریبا سب مانتے ہیں مذہبی عدم برداشت ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے. اس ناسور کی پرورش میں حکومتوں کے کردار کے ساتھ ساتھ عوام، میڈیا، تعلیمی اداروں، نصاب اور دیگے شعبے سب شامل رہے ہیں. آج مذہبی عدم برداشت کے ساتھ ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہو چکے ہیں. کوئی عدم برداشت پر مبنی تقریر اور لٹریچر کے زریعے مالی فوائد حاصل کر رہا ہے تو کوئی ووٹ بنک بنا رہا ہے. کوئی اسی عدم برداشت کے فروغ میں مصروف عمل ہوکر معاشرے میں معتبری سمیٹ رہا ہے تو کوئی عدم برداشت کے فروغ کے نتیجے میں ہیرو بن چکا ہے .عدم برداشت انسانوں تک محدود نہیں ہے مذہبی عدم برداشت تو اشیا خورد و نوش ، جانوروں اور دیگر اشیا تک پہنچ چکی ہے . مثال کے طور پر رمضان میں روٹی یا سالن فروخت کرنے پر کسی بھی شخص کے ساتھ قتل سمیت کوئی بھی سلوک ہو سکتا ہے. جبکہ ڈبل روٹی،بسکٹ، سموسہ،پکوڑہ، پھل، دہی، اچار ، یا کوئی بھی دیگر کھانے کی چیز فروخت کرنے پر مذہب حرکت میں نہیں آئے گا . دلیل اگر یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیز کی سر عام فروخت کو دیکھ کر روزہ دار کا روزہ متاثر ہوتا ہے تو روٹی سالن کے علاوہ دیگر اشیا کی سر عام دستیابی سے روزہ متاثر کیون نہیں ہوتا؟ اللہ کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار اور متقی ہے. حیرت انگیز رویہ میڈیا کا ہے جو نام نہاد مذہبی جذبات سے وابستہ واقعات کو اشو بنا دیتا ہے کہ معاشرے کی تباہی(گھٹیا پن) کی نشانیوں کو سپیس فراہم کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے .ماہ رمضان میں ہری پور میں 18 ماہ کی بچی کے ساتھ ریپ کا واقہ توہین مذہب، توہین رمضان ہی نہیں تھا بلکہ یہ توہیں انسانیت بھی تھا مگر ڈان (نے ب
Saleem Magsi Aug 10, 2014 04:26pm
کسی بھی میڈیا گروپ کا دوہرا معیار ان کے اپنے اس موقف پر کہ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں کو خود ان کے اپنے ہاتھوں عیاں ہوتا ہے کہ جب کمینٹیٹر کے پورے کے پورے کمینٹس ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ فیصل باری صاحب ایسے تجربے بے حساب ہیں لیکن میں یہاں اپنے فیس بک پیج دیئے دو کمینٹس دیکر اپنی بات پوری کرتا ہوں۔۔۔ میرے بھائیو، ھمارے لئے اصل مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کون ہے اور میں کون ہوں۔۔۔؟؟؟إإإإ ھماری بحیثیت ایک مذھبی ذھنیت کے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ھمارے جیسا کیوں نہیں اور اگر وہ ھمارے جیسا نہیں تو اس کو جینے کا بھی کوئی حق نہیں۔۔۔۔۔اور یہ ذھنیت خود نبی اکرم صہ کے زمانے پئدا ہو چلی تھی۔۔۔۔۔۔جسکو منافقت سے تعبیر کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔جسکا قرآن میں بھی ذکر آیا ہے کہ جب ہو تمہارے ساتھ ہیں تہ تمہارے جیسے ہیں اور جب وہ تم سے الگ ہوکر ان سے جا ملتے ہیں تو ان کے ہو رھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ان کو مسلمان مانا گیا اور صرف گنتی کو بڑھانا مقصود تھا۔ بلکہ ھر طرح سے ہم سے اچھے مسلمان بھی ہیں اور انسان بھی۔۔۔۔۔۔اگر مولانا مودودی کو ١۹۵۰ کے عشرے میں دی گئی موت کی سزا پر عملدرآمد ہوجاتا۔۔۔۔شاید آج پاکستان عوامی جمہوریہ پاکستان ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا مودودی تو کسی نہ کسی طرح مرگیا کہ سب نے مرنا ہے۔۔۔۔۔لیکن پاکستان کے ان مولویوں، فوج اور انتظامیہ نے مولانا مودودی کی سزا کو منسوخ کراکے پاکستان، اسلام اور انصاف کو تا قیامت ذلت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔۔۔۔۔
king Don Aug 10, 2014 09:00pm
@آشیان علی: عجیب بات ہے کہ جو بولتا ہے تو مذہبی فلاسفر بن کے بولتا ہے۔ کیا ہماا مسئلہ صرف مذہب ہے۔۔۔۔ یا اس کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں؟۔۔۔۔ٹھیک ہے روزے میں کفار اور مسافروں کے ساتھ اچھا ہے کہ انھیں کھانا دیا جائے۔ لیکن مسافر کے نام پر عام آدمی کا کیا کیا جائے۔۔۔۔۔ دوسری بات قادیانی اور شیعہ افسوس ان کا تو خیال ہے لیکن سنی لوگوں کا نہیں کیا ایان سنی مسلمانوں کو حقوق دے رہاہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آشیان علی Aug 11, 2014 07:17pm
@king Don: پاکستان میں ہر ایک اقلیت ہے کوئی مذہبی اقلیت کوئی لسانی اقلیت کوئی علاقائی اقلیت کوئی رنگ کی بنیاد پر اقلیت . فرقہ کی اقلیت بھی تو ہے ،مذہب ہی تو مسلہ ہے ہر چیز مذہب سے ہی جڑی ہوئی ہے مذہب کی بنیاد پر ہی نصاب، تعلیم ، اداروں ، معاشرہ کاروبار ، انتخابات ، سیاست حتی کہ صحافت بھی مذہبی اور فرقہ کی بنیاد پر کی جا رہی ہے .
mongol Aug 12, 2014 05:01pm
Allama Iqbal ka khwaab aur Unki shairee sab ghalat ho giya. Bangladesh ka alheda hona aur Qaom Mazhab se hy waali baat. Sab Jhoot hy.
Saad Aug 14, 2014 11:26am
Dear, Islam is Complete Deen to Follow. So it should be applied in Pakistan Completely and every one can live in Pakistan. Why you are making people confuse on "DO QOUMI NAZARYA" ... MUSLIMS and HINDUS are TWO Different Nations. that is True.. if you do not believe ask MOUDI.... Regards, Saad