کے پی سیکرٹریٹ کے اکثر ملازمین اسپیکر کے ضلع سے

اپ ڈیٹ 11 اگست 2014
خیبر پختونخواہ اسمبلی کا ایک   منظر — فائل فوٹو
خیبر پختونخواہ اسمبلی کا ایک منظر — فائل فوٹو

پشاور: حکومتی اداروں سے اقرباء پروری ختم کرنے کے تحریک انصاف کے دعوے کے برخلاف، پختونخواہ اسمبلی میں بھرتی کیے جانے والے افراد کی اکثریت اسپیکر اسد قیصر کے آبائی ضلعے صوابی سے تعلق رکھتی ہے۔

2013ء میں موجودہ اسمبلی کے قیام کے بعد سے اب تک اسمبلی سیکریٹریٹ میں گریڈ ون سے گریڈ 19 پر 16 تقرریاں کی گئی ہیں۔

خیبر پختونخواہ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف واضح اکثریت رکھتی ہے، جبکہ اسپیکر اسد قیصر بھی پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔

ذرائع کے مطابق قومی ایئرلائن کے ایک اسٹیورڈ کو گریڈ 19 میں ترقی دے کر اسپیکر کے اسپیشل سیکرٹری کے طور پر تعینات کیا گیا ہے، جبکہ گریڈ 20 کے ایک افسر پہلے ہی اسپیکر کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ آسامی کو مستقل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ ماہ پہلے سپیکر کے برادر نسبتی کو سیکرٹریٹ کے آئی ٹی سیکشن میں گریڈ 16 میں تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ انہیں آزمائشی مدّت کے اختتام سے پہلے ہی گریڈ 17 میں ترقی دے دی گئی تھی۔

اسمبلی کے ایک عہدیدار کے مطابق کسی کارپوریشن کے ملازم کو اسمبلی میں سینئر عہدے پر فائز کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی، ان کا کہنا تھا کہ ایک سال کے دوران اتنی بڑی تعداد میں تقرریاں "غیر معمولی" ہیں۔

دوسری جانب اسپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ درجہ۔6 کے ملازمین کے علاوہ موجودہ حکومت نے صرف تین افسران کا تقرر کیا تھا، جبکہ تقرری کرتے وقت قانونی طریقہ کار اور میرٹ کا خیال رکھا گیا ہے۔ اپنے قریبی رشتے دار کی آئی ٹی سیکشن میں تعیناتی کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقرری کرتے وقت کسی قسم کی بے قاعدگی نہیں کی گئی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سیکرٹریٹ میں ایک پریشر گروپ موجود ہے جو انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکرٹریٹ کے اکثر ملازمین کو سابقہ حکومت کے دور میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا تھا۔

جبکہ اسپیشل سیکرٹری کے عہدے کے بارے میں استفسار پر اسپیکر نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ عہدہ پہلے سے ہی وجود رکھتا ہے۔ اسمبلی عہدیداران کے مطابق اسمبلی کے موجودہ قوانین کے تحت اسمبلی کی فنانس کمیٹی کو بوقت ضرورت بلا واسطہ تقرریوں کا اختیار حاصل ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی اسمبلی کے اسپیکر کرتے ہیں، جبکہ کمیٹی میں محکمہ خزانہ کے افسران اور اسمبلی کے ارکان شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے ادارے تقرریوں کے لئے صوبائی پبلک سروس کمیشن کو درخواست ارسال کرتے ہیں۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ اسمبلی میں نئی تقرریوں کی وجہ سے جگہ کی کمی کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ اسمبلی سیاسی بنیادوں پر کی گئی غیر ضروری بھرتیوں کے باعث پہلے ہی بھر چکی ہے، مزید بھرتیاں کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ لائبریری نے ایم پی اے ہوسٹل کے لیے 70 آسامیاں پیدا کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ کمیٹی کی صدارت ڈپٹی اسپیکر امتیاز شاہد نے کی تھی۔

اس وقت محکمہ کمیونیکشن اینڈ ورکس کے بلڈنگ مینٹیننس سیل کے اسٹاف کو ایم پی اے ہوسٹل میں تعینات کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخواہ اسمبلی سیکرٹریٹ میں ملازمین کی تعداد 550 سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ عہدیداران کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے تقریباً برابر ہے۔

جبکہ سپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کے قومی اسمبلی میں ملازمین کی تعداد 900 کے لگ بھگ ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سیل میں مزید بھرتیوں کی تجویز زیر غور ہے، جس میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ اسٹاف موجود ہے۔ اس وقت سیل میں ایک ایڈیشنل سیکرٹری، 2 ڈپٹی سیکرٹری، 4 اسسٹنٹ، اور کئی ملازمین موجود ہیں۔

ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں دو پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں ہیں، لیکن وہاں عملے کے ارکان کی تعداد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے مذکورہ سیل سے کم ہے۔.

عہدیداران نے بتایا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے حال ہی میں تمام خالی آسامیوں کو بھرنے کے لیے وفاقی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اشتہار جاری کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کو بھی میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں کرنی چاہییٔں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں