جب موت پر بھی جشن منایا جائے

12 اگست 2014
— السٹریشن ابڑو
— السٹریشن ابڑو

یہ سب ایک فوتگی پر جمع ہوئے ہیں مگر ان چھ یا سات بوڑھے افراد کے چہروں پر غم کے آثار نہ ہونے کے برابر ہے۔

مہندی سے رنگی پتلی مگر لمبی داڑھی والے ایک شخص کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی نظر آرہی ہے، جب اس سے ایک شخص نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا" بڑا افسوس ہوا جی" تو اس کا جواب تھا" ایسا مت کہو، یہاں یہ لفظ استعمال کرنا ٹھیک نہیں، کیونکہ اللہ کی مرضی ہے، اللہ بہت کم والدین کو ہی یہ اعزاز دیتا ہے"۔

سرخ داڑھی والا یہ شخص محمد الیاس ہے جو چکوال شہر سے 38 کلومیٹر دور واقع رتہ نامی گاﺅں کا رہائشی ہے، اور اس کے 23 سالہ بیٹے کی اچانک موت پر لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں۔

محمد الیاس کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا محمد عبداللہ ایک جہادی تنظیم کی سرپرستی میں کشمیر میں ہندوستان کے خلاف ' جہاد' کے لیے گیا تھا، اور وہ مبینہ طور پر دو اگست کو آزاد جموں و کشمیر کے کیل سیکٹر سے اپنے گروپ کے ہمراہ ایل او سی کنٹرول کرتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

اب الیاس اپنے گھر آنے والے افراد کو کہہ رہا ہے کہ اس کا بیٹا 'شہید' ہوا ہے اور لوگ اسے مبارکباد دیں۔

عبداللہ کی میت اس پرسکون گاﺅں میں پانچ اگست کی صبح اس کے ساتھیوں نے پہنچائی، محمد الیاس کا کہنا ہے کہ اس نے خود گاﺅں کی مسجد کے لاﺅڈ اسپیکر کے ذریعے اپنے بیٹے کی موت کا اعلان کیا، جبکہ نماز جنازہ کے موقع پر تنظیم کے مقامی رہنماءقاری غلام عباس نے 'جہاد' کی اہمیت پر طویل خطاب کیا۔

عبداللہ ہندوستانی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا واحد ' جہادی' نہیں، ایک 37 سالہ شخص کی میت چکوال کے جنوب میں 40 کلومیٹر دور واقع گاﺅں واہلہ میں پچیس جولائی کو لائی گئی تھی۔

محمد عاطف نامی یہ شخص ایک اور کالعدم تنظیم لشکر طیبہ زیرتحت کے تحت پندرہ سال سے ' جہاد' کررہا تھا، جس کی نماز جنازہ حافظ عبدالرحمان مکی نے پڑھائی۔

چند برس قبل عبداللہ معمول کی زندگی گزار رہا تھا، تاہم تنظیم کے زیرتحت شائع اور خفیہ طور پر تقسیم کیے جانے والے ایک ہفت روزہ جریدے القلم نے صورتحال میں تبدیلی کا آغاز کیا۔

محمد الیاس نے ڈان کو بتایا" میں گزشتہ بارہ سال سے القلم اور ضرب مومن کا مطالعہ کررہا ہوں، ان اخبارات کو پڑھنے کے بعد میں نے اپنا ذہن بنالیا تھا کہ اپنے بیٹے کو جہاد پر بھیجوں گا"۔

عبداللہ کی جیش محمد کے کارکنوں سے ملاقات ایک سال قبل راولپنڈی کی ایک مسجد میں ہوئی جہاں سے اسے مظفرآباد بھیجا گیا جہاں اس نے چھ ماہ تک تربیت حاصل کی، جبکہ اس نے جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے آبائی شہر بہاولپور میں بھی ایک پندرہ روزہ تربیتی کورس کیا۔

طویل موسم سرما کے بعد مولانا مسعود اظہر نے مظفر آباد میں گزشتہ فروری کو ایک پرہجوم مگر منظم ریلی سے خطاب کیا، جس میں عبداللہ بھی موجود تھا، اسی ماہ کے آخر میں اسے ایک مشن کے لیے منتخب کرلیا گیا۔

محمد الیاس نے بتایا" جب میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ اسے مشن کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے، تو میں مفتی جمیل الرحمان سے اجازت لینے گیا، جن کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو اللہ کے لیے لڑنے بھج سکتا ہوں اور اس کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو جانے کی اجازت دے دی"۔

مفتی جمیل الرحمان چکوال شہر کی امدادیہ مسجد کے امام ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تحریک خدام اہل سنت و الجماعت کے قاضی ظہورالحسن کے نائب ہیں۔

اگرچہ یہ تنظیم کالعدم نہیں مگر مبینہ طور پر اس کے کالعدم تنظیموں سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ مانا جاتا ہے کہ اس جماعت کو نواز لیگ کے رہنماﺅں کی حمایت بھی حاصل ہے جس کے بدلے میں انہیں انتخابات کے موقع پر مدد فراہم کی گئی تھی۔

محمد الیاس کا کہنا ہے کہ "میری اہلیہ عبداللہ کی شہادت پر مجھ سے بھی زیادہ خوش ہے اور میں اپنے دوسرے بیٹے کو بھی جہاد پر بھیجنے کے لیے تیار ہوں"۔

الیاس کا چھوٹا بیٹا سیف اللہ اس وقت سات سال کا ہے اور وہ گاﺅں کے پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کا طالبعلم ہے۔

ضلعفی پولیس آفیسر ڈاکٹر معین مسعود نے کہا" ہم ان واقعات سے آگاہ ہیں مگر ہمیں نہیں معلوم کہ دونوں افراد کس طرح ہلاک ہوئے"۔

ایک مقامی سنیئر صحافی یونس اعوان نے اس حوالے سے بتایا" عسکریت پسند گروپس ضلع چکوال میں موجود ہیں اور وہ نوجوانوں کو اپنے مشنز کے لیے منتخب کرتے ہیں"۔

چکوال ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن ایڈووکیٹ افتخار حیدر نے بتایا" کالعدم تنظیموں کا اس ضلع میں اثررسوخ تیزی سے بڑھا ہے، اگرچہ ' جہاد' کے حوالے سے رجحان میں کمی آئی ہے مگر اس کی روک تھام کے لیے پالیسی نہ ہونے سے لوگوں کے خیالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی"۔

معروف مصنف و کالم نگار زاہد حسین نے کہا" جیش محمد اور لشکر طیبہ کے دوبارہ فعال ہونے کا عمل کافی خطرناک ہے، حکومت کو ان تنظیموں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا چاہئے کیونکہ عسکریت پسندی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوسکتی"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں