لاہور : زمان پارک تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے، ماضی میں اس مقام کی وجہ شہرت کرکٹ کا کھیل تھا جو یہاں کے رہائشیوں کی زندگی کا جزو تھا، مگر اب علاقہ تبدیلی کے نعروں سے گونج رہا ہے، یہاں کے ممتاز ترین باسی عمران خان پرانی روایات کو بدل کر نئے پاکستان کی تعیر کا بیڑہ اٹھالیا ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ کے گھر کے باہر جمع ہجوم میں بیشتر عمر کی تیسری دہائی کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جبکہ متعدد خواتین کو بھی یہاں گھومتے پھرتے، پارٹی جھنڈے لہراتے اور تبدیلی کے نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔

کسی چہرے پر بھی حکومت کی جانب سے اسلام آباد کو سیل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے کنٹینرز اور وفاقی دارالحکومت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی پریشانی نظر نہیں آتی۔

کالج کے ایک طالبعلم نقی عباس نے ڈان کو بتایا" ہم چودہ اگست کو ہر صرت میں اسلام آباد جائیں گے، ہم نے شہر میں داخلے کے لیے کنٹینرز کو ہٹانے کے انتظامات کرلیے ہیں، کوئی چیز ہمیں روک نہیں سکتی، اگر حکومت نے ہمارے پرامن مظاہرے کے خلاف طاقت استعمال کی تو ہم جانتے ہیں کہ کس طرح پولیس سے نمٹنا ہے"۔

نقی عباس جو گزشتہ روز سے اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کی تیاریوں میں مصروف تھا، کا کہنا ہے" ہم نواز شریف کے استعفے اور نئے انتخابات سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کریں گے"۔

اپنے رہنماءکی طرح مظاہرین بھی وزیراعظم کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے مطالبے پر وزیراعظم کی جانب سے تاخیر سے سامنے آنے والے ردعمل سے زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔

پی ٹی آئی لاہور کے ایک اور ورکر محمد سبحان نے عمران خان کے اسی موقف کو اپنا خیال بھی بتایا" حکومت نے عدالتی تحقیقات کا اعلان کرنے میں کچھ تاخیر کردی ہے"۔

عمران خان نے بھی وزیراعظم کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی عدالتی تحقیقات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب بہت تاخیر ہوچکی ہے اور ان کا مارچ ہرصورت میں اسلام آباد جاکر نواز شریف کو مستعفی ہونے اور غیرجانبدار افراد پر مشتمل حکومت کی تشکیل پر مجبور کرے گا، جو انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کرائے گی۔

سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے کہا ہے کہ حکومت صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے میں بہت تاخیر کردی، تاہم انہوں نے حکومت کی جانب سے حالات میں بہتری کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کو اپنے لب و لہجے میں کئی ماہ پہلے ہی تبدیلی لانی چاہئے تھی۔

ان کا کہنا تھا" اب حکومت کا مصالحتی لہجہ زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتا، عمران خان کو احتجاجی مارچ کی اجازت دینے کی بجائے حکومت ان سے ضمانتیں طلب کررہی ہے، جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ممکنہ دہشتگردانہ حملے کی انٹیلی جنس رپورٹس کے پیش نظر اسلام آباد کو کھولا اور مظاہرین کو داخلے کی اجازت نہیں دی جاسکتی"۔

انہوں نے گزشتہ شب وزیر داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا" حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ اس مرحلے پر مظاہرے کی تفصیلات طے کرنا ممکن نہیں، حکومت کے لیے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بغیر کسی شرط کے پی ٹی آئی کو مظاہرے اور مظاہرے کی اجازت دیدے، اس سے دونوں حریفوں کے درمیان مصالحت کا ایک موقع پیدا ہوگا"۔

تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت نے مصالحتی اقدامات میں تاخیر کردی جس کے باعث عمران خان کے پاس حکومت مخالف مظاہرے کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں رہا۔

ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھانے والے تجزیہ کار نے نام چھپانے کی شرط پر کہا" اگر عمران خان حکومت کی جانب سے نرم زبان کے استعمال اور وزیراعظم کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کی عدالتی تحقیقات کے اعلان کے باوجود اپنے احتجاج کو آگے بڑھا رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی رہنماءاپنے مقاصد کے حصول کے لیے پرامید ہیں"۔

انہوں نے اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا کہ مظاہرین کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے یا وہ اس کا حصہ ہوسکتی ہے۔

انہوں نے فوجی قیادت کی ممکنہ مداخلت کو ممکن قرار دیا جو اس طرح کے بحران کی صورتحال میں آخری ثالث ثابت ہوسکتے ہیں۔

ان کا سوال تھا کہ " اس وقت جب ہر سیاستدان جن میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے اتحادی امیر جماعت اسلامی بھی شامل ہیں، اس احتجاج سے دور ہٹ چکے ہیں، مگر کیا واقعی فوج کو حکومت اور عمران خان کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے؟۔

تاہم انہوں نے اس بارے میں رائے دینے سے انکار کردیا کہ فوج کس کے حق میں جانا پسند کرے گی۔

تاہم حسن عسکری رضوی کو نہیں لگتا کہ فوج اس تنازعے میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرے گی جب تک ملک بھر میں تشدد کی لہر پھوٹ پڑے" اگر ایسا ہوا تو فوج کو مداخلت پر مجبور ہونا پڑے گا"۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور چوہدری نثار کی بدھ کو آرمی چیف سے ملاقات کے بارے میں حسن عسکری رضوی کا ماننا ہے کہ یہ نواز حکومت کی جانب سے عوام پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ فوج اس کے ساتھ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں