اگر مگر سے کام نہ لیں

18 اگست 2014
لکھاری ڈان کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔
لکھاری ڈان کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

ٹی وی چینلز پر دو احتجاجی مارچز کی 48 گھنٹے کوریج عوام کو آنے والے حالات کا کوئی اندازہ فراہم نہیں کر رہی۔ اس وقت حالات کو سمجھنا بہت مشکل ہے، کیونکہ سامنے بہلے ہی دو مارچز ہیں، لیکن ایجنڈے بہت سارے ہیں، جن میں سے کچھ غیر اعلانیہ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے احتجاج شروع کیا تھا، تو ان کا مطالبہ تھا کہ مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں، ملوث افراد کو سزائیں دی جائیں، اور انتخابی عمل میں اصلاحات لائی جائیں۔

سچ کہیں، تو کوئی بھی ذی شعور شخص ان مطالبات کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ تمام جمہوری قوّتوں کو ان مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات کی طرف بڑھنا چاہیے تھا، تاکہ اگلے انتخابات کو انڈیا کے انتخابات کی طرح شفاف بنایا جا سکے، پر ایسا نہیں ہوا۔

حکمران جماعت ن لیگ نے اس مسئلے کو سیاسی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے عدالتوں پر چھوڑ دینا بہتر سمجھا، جو کہ ایک طرح سے مسئلے سے جان چھڑانے کے مترادف تھا۔ اب اسے عمران خان کا مضبوط ارادہ کہیں، انا کہیں، یا ضد، پر انہوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، عمران خان زیادہ ناراض ہونے لگے، اور ان کے مطالبات میں نامناسب، اور منطق کے خلاف مطالبے بھی شامل ہونے لگے۔ اب عمران خان چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں، اسمبلیاں تحلیل کریں، انتخابی اصلاحات لائی جائیں، اور اس کے بعد نئے انتخابات کرائے جائیں۔

اب کیونکہ عوام کا ایک بڑا طبقہ جو ان کے ساتھ مظاہرے میں بھی شامل ہے، ان کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے، تو یہ عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف الفاظ میں بتائیں، کہ وہ اپنے مطالبات کی تکمیل کس طرح چاہتے ہیں، کیونکہ آئین میں ان کے مطالبات کی تکمیل کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے، جب تک کہ نواز شریف، اور سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں ان کی بات مان کر اپنے ڈیتھ وارنٹ پر خود دستخط نا کر دیں۔ تمام سیاسی جماعتیں موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے کسی بھی غیر آئینی اقدام (فوجی مداخلت) کے خلاف ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی، جو پورے سسٹم کی بساط لپیٹ دینے پر مصر ہیں، پر پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے آئین کی شقوں کا حوالہ دیتے ہیں، اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ فوجی مداخلت کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ ملٹری نے اس موجودہ بحران میں کودنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ خاکی وردیوں کی قیادت بھلے ہی حکومت کے کچھ فیصلوں سے ناخوش ہو، پر حالیہ کچھ دنوں کی خبروں (کچھ آئی ایس پی آر کنٹرولڈ) کے مطابق سول اور ملٹری تعلقات خوشگوار ہیں۔

تو کیا آپ ایک بیچارے تجزیہ نگار کو، جو معاملات سمجھنے کی کوششیں کر رہا ہے، الزام دے سکتے ہیں کہ وہ صحیح تجزیہ نہیں کر پا رہا؟ اس وقت دو مرکزی لیڈروں (طاہر القادری اور عمران خان) کی مختلف اور کنفیوز کر دینے والی پوزیشنز کو ایک طرف رکھیں، تو سیاسی طور پر پستہ قامت لوگ لوگ بھی سیاست میں اپنی جگہ واپس حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایسے لوگوں میں سب سے نمایاں شیخ رشید ہیں، جو ریٹنگز کے خواہشمند ٹی وی ٹاک شوز کے میزبانوں کے پسندیدہ ہیں۔ گزشتہ حکومت کی پوری مدّت کے دوران وہ آرمی کو مداخلت نا کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے، پر اب وہ خود کو صرف ٹی وی پر بیانات و مطالبات تک محدود رکھنا نہیں چاہتے۔

وہ راولپنڈی میں اپنے حلقے سے باہر عوامی حمایت نہیں رکھتے، اور اب انھیں یہ حاصل کرنے کے لیے عمران خان اور طاہر القادری کے مارچوں کی صورت میں موقع مل گیا ہے۔ اب اگر دونوں مارچ جمعرات کے روز اپنے لانچ کے بعد سے ایک دوسرے سے کچھ میلوں کی دوری پر چل رہے ہیں، تو یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ شیخ رشید نے کوشش نہیں کی ہے۔

اور اگر کسی طرح جوشیلے سیاسی کارکنوں کے درمیان تصادم (ن لیگ کے کارکنوں کا تصادم شروع کرنا قابل مذمت ہے) حکومت کو ہلا دینے، یا پنجاب بھر میں گلیوں کوچوں میں ہونے والی جنگوں میں تبدیل نا ہو، تو میں شرط لگا کر کہ سکتا ہوں کہ وہ شیخ رشید ہی ہوں گے جنہیں اس سے مایوسی ہو گی۔

اور پھر گجرات کے چوہدری برادران سے زیادہ کون اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ کوئی تیسری قوّت ان کی مدد کو آ پہنچے۔ وہ جنرل مشرّف کے دور میں اسی طرح پھلتے پھولتے رہے، جس طرح وہ اور ان کے پرانے دوست شریف برادران ضیاء الحق دور میں تھے۔

1999 کے مارشل لاء، ملک بدری، اور بینظر بھٹو کا اثر رسوخ، جن کے ساتھ انہوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے، نے شریف برادران کو اپنے طور پر جمہوری شخصیت بنا دیا، جو سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف ہے۔ (لیکن بغیر احتساب کے سول حکومت کا ان کا آئڈیا آج کے دور میں قابل عمل نہیں ہے)۔

لیکن چوہدری برادران نے کبھی بھی کھلے بندوں فوجی مداخلت یا حکومت کی مخالفت نہیں کی ہے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں، کہ شریف برادران کا فائدہ ان کا نقصان ہے، یہاں تک کہ ان کی سیاسی موت بھی۔ اسی لیے وہ مظاہرہ کرتے ہوئے لیڈروں کو راہ دکھانے میں آگے آگے ہیں۔

مارچوں کو مٹی بھرے ہوئے وزنی کنٹینرز کی مدد سے روکنے میں ناکامی کے بعد جب حکومت نے تمام رکاوٹیں ہٹا کر مارچوں کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا، تو امید بندھی تھی، کہ شاید یہ دونوں فریقوں کے درمیان کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ امید اس لیے، کیونکہ ایسی کوئی بھی ڈیل میں انتخابی اصلاحات کو شامل ہونا تھا، جس پر ایک سروے کے مطابق ٨٠ فیصد لوگوں کا اتفاق ہے۔

امید کی جا رہی تھی کہ مظاہرین جمع ہوں گے، مذاکرات ہوں گے، اور جیسے ہی انتخابی اصلاحات کے روڈ میپ پر اتفاق ہو گا، تو وہ فتح کا جشن مناتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔

حقیقت میں بھلے ہی اس مطالبے کو زیادہ اہمیت نا ملی ہو، پر طاہر القادری کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے، کہ اگر حکومت انھیں یقین دلائے کہ وہ ایک مخصوص مذہبی فرقے کی طرف اپنے جھکاؤ پر دوبارہ سوچے گی، تو شاید وہ بات چیت کرنے پر آمادہ ہوں۔

یہ سب اندازے ہیں۔ اگلے چند روز میں حالات نازک اور غیر یقینی صورتحال اختیار کر سکتے ہیں، پر اگر مظاہرین کے مرکزی لیڈر پر امن رہنے کے اپنے وعدے پر قائم رہیں، بات چیت کرنے پر آمادہ رہیں، اور اشتعال دلانے والے عناصر سے دور رہیں، تو امید نہیں ٹوٹے گی۔

اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس کسی بھی کھلاڑی کے مقابلے میں کھونے کے لیے زیادہ چیزیں ہیں، اس لیے امید ہے کہ دانشمندی سے کام لیا جائے گا۔ پارٹی کو اگر مگر سے کام لینے کے بجائے صاف انداز میں جمہوری روایات کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

آشیان علی Aug 19, 2014 04:58pm
عباس ناصر صاحب قادری اور عمران کے مطالبات یا مطالبات کا طریقہ کتنا آئینی ہے ہم کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے. مگر ان کے مطالبات ضرور آئینی ہیں. اگر انقلاب یا آزادی مارچ غیر جمہوری ہیں تو 12 لوگوں کا قتل، مقتولون کے ورثا کو ایف آئی آر درج کروانے کا حق نہ دینا سینکڑوں لوگون کو گولیوں سے زکمی کرنا، جہاز کو ڈائیورٹ کرنا، کنٹینر چھیننا، الیکشن میں دھاندلی کرنا ہزاروں یا سینکڑوں غیر جمہوری مطالم کے رد عمل میں 2 غیر قانونی مارچ تو رداشت کرنا ہی ہوں گے. اصل بات یہ ہے شام کو سب لوگ فیملیز کے ساتھ آبپارہ چھلے جاتے ہیں جہاں میلہ لگا ہوا ہے. تفریح ہو جاتی ہے میں جاتا رہتا ہوں.