کیا پاکستان کی ناکامی ممکن ہے؟

25 اگست 2014
لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

ممکن ہے" نیا پاکستان" کے نعرے گذشتہ ہفتے پورے پنجاب میں گونج رہے ہوں، لیکن دنیا کی توجہ اس پر سے کم ہورہی ہے- ان صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جو عالمی میڈیا کے لیے پاکستان کی خبریں اکٹھا کرتے ہیں، مجھے یہ سن کر حیرت نہیں ہوئی کہ انہیں ان کہانیوں کے لیے اخباروں میں جگہ ملنی مشکل ہو رہی ہے- دنیا میں اس وقت اس سے بڑے دوسرے بحران ہیں، عراق سے لے کر لیبیا، غزہ سے ڈونیٹسک تک- جوبات پاکستان کی خبروں کے بارے میں انہیں عجیب لگتی ہے وہ پاکستان کے استحکام کے لیے پیچیدہ صورت حال ہوسکتی ہے-

یہ خیال کہ، پاکستان جیسا بڑا ملک کیونکر ناکام ہوسکتا ہے ہمارے ذہنوں میں کافی عرصے سے بسا ہوا ہے- ہم نے ایک عرصے سے یہ فرض کر لیا ہے کہ چاہے ہمارے لیڈروں سے کیسی ہی غیر ذمہ دارانہ حرکتیں سرزد ہوں عالمی برادری ہمیں اس لئے معاف کردیگی کہ پاکستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے--- یا شاید عالمی استحکام کیلئے اس کو ٹوٹنا نہیں چاہئے-

یہ انوکھا تصور کئی وجوہات کی بنا پر ہے: یہ ملک تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک بہت بڑی منڈی ہے؛ ایک نیوکلیئر طور پر مسلح ملک؛ اپنے بڑی تعداد میں غیرممالک میں بسے ہوئے تارکین وطن کی وجہ سے؛ تشدد پسند گروہوں کی پناہ گاہ جن کی کارروائیوں کی توصیف ہوتی ہے نہ کہ مذمّت؛ ایک مشکل اوراختلافات سے بھرے علاقے میں ایک اہم راہداری؛ چین کا گہرا دوست اور اسی طرح کی کئی باتیں-

ہماری اس خودسر خوداعتمادی کی وجہ سے کہ ہمارا ملک بہت بڑا ہے اور ناکام نہیں ہوسکتا ہمارے سویلین اور فوجی رہنماؤں نے اکثرملک کو نقصان پہنچانے والی پالیسیاں بنائی ہیں- مثال کے طور پر، دیکھئے، عسکریت پسندی کے حوالے سے ' دوہرا کھیل'؛ سبسڈی کو ختم کرنے سے انکار، ہندوستان سے تعلقات میں ہٹ دھرمی کا مسلسل مظاہرہ؛ اور تسلسل کے ساتھ بری حکمرانی-

ہمارے رہنما مسلسل برے فیصلے کئے جارہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ دنیا اس کی معیشت کو گرنے دینے یا عسکریت پسندوں کے قبضے میں جانے سے پہلے دو بار سوچے گی- خاص طور پر امریکہ نے یہ تاثر گذشتہ دہائی میں کئی بار دیا ہے، بار بار پاکستان کو فوجی امداد دیکراور آئی ایم ایف کے نئے نئے پیکیج کے ساتھ تاکہ تمام راستے اور سپلائی کی راہیں کھلی رہیں-

لیکن حالات بدل رہے ہیں- دنیا اب ناکامیوں کے ساتھ بہتر طریقے سے واقف ہورہی ہے- تھوڑے ہی عرصے پہلے واشنگٹن نے اعتراف کیا کہ وہ عراق میں امن نہیں لاسکتا ، اور وہ وہاں سے روانہ ہوگیا- اورپچھلے ہفتے اس ملک میں اس کی واپسی عسکریت پسند اسلامی ریاست کے جہادیوں کے گروپ کے خلاف ہوائی حملہ کے لیے کینے سے بھری، محدود، اورمایوسی سے پر تھی- امریکہ نے شام، یوکرائن، اسرائیل اور دوسری جگہوں کے بدلتے ہوئے حالات کو بھی صبر کے ساتھ دیکھا- شام کے حالات کا چیلنج خصوصاً زیادہ شدید تھا، اس لیے کہ یہ ملک انتہا پسند تشدد کا گہوارہ بننے جارہا تھا اور وہ بھی مشرق وسطیٰ کے دل میں-

اس لیے پاکستان اب کوئی انوکھا ملک نہیں رہا جو تباہی کے کنارے ہونے کی صلاحیت کی بنا پراپنے پڑوسیوں کیلئے عدم استحکام کا باعث بنے- جو خوف ایک جہادی پاکستان کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا اب کم ہوگیا ہے کیونکہ بہت سے یورپی ممالک اپنے مسلم شہریوں کو شام جاتے ہوئے دیکھ کر خوف زدہ ہیں کہ وہاں سے واپسی کے بعد وہ خود اپنے ہاں حملے نہ شروع کردیں-

ہاں پاکستان کے پاس نیوکلئیر بم کچھ سالوں تک اس کو عالمی ریڈار پررکھے گا، لیکن یہ بھی اس وقت تک جب تک کہ یہ بھی ایک عام سی بات ہوجائیگی-

یہ بات اسی تناظر میں ہے کہ پاکستان کا اپنے داخلی چیلنجزسے نمٹنے سے انکار اسے عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے- لہٰذا پاکستانی لیڈروں کا لائحۂ عمل، پہلے کارروائی کرنا، پھر سوچنا، ہونا چاہئے- وہ سمجھتے ہیں کہ آگے کی سوچ کا وژن اتنا ضروری نہیں ہے کیونکہ ہمیشہ کی طرح ان کو مصیبت سے نجات دلا دیا جائیگا: سیاستدان فوج کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ان کو بچائے، فوج امریکہ کا انتظار کرتی ہے کہ وہ عالمی برادری کی معاونت سے آگے آئے-

ستم ظریفی یہ ہے، کہ یہی خوداعتمادی کہ ہم اتنے بڑے ہیں کہ ناکام نہیں ہوسکتے ہیں، ہماری ناکامی کی وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ عالمی برادری بحرانوں سے تنگ آکر ان کی مدد کرنے کی خواہش کھورہی ہے، جو خود اپنی مدد نہیں کرتے-

ایسی کئی باتیں ہیں جہاں پاکستان کی انتہاپسندی کی وجہ سے عالمی برادری مایوسی میں اپنے ہاتھ اٹھاکر پیچھے ہٹ سکتی ہے: عسکریت پسند گروپوں کی جانب نرم رویہ، اور' اچھے' اور' برے' طالبان کو پراکسی جنگوں میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کا رجحان؛ غیر معقول اور اپنے فائدے کا سوچنے والے پاکستانی سیاستدان( جوپنجاب میں پی پی پی کی حالیہ لغو حرکتوں سے ظاہر ہے)؛ مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم تفریق اورظلم وستم سے نمٹنے سے انکار؛ اور کوئی بامعنی معاشی اصلاحات متعارف کرنے میں ناکامی، اور بے معنی جنگوں میں مصروف، ہمارے لیڈروں نے اپنی منزل کھودی ہے-

بہت سے تجزیہ نگار اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ہم اب اتنے بڑے نہیں ہیں کہ ناکام نہ ہو سکیں ( یا ہماری ناکامی اتنی تباہ کن یا انوکھی ہوسکتی ہے جتنی پہلے سمجھی جاتی تھی) اور یہی وجہ وزیرستان میں حالیہ فوجی آپریشن کی بھی ہے- کئی لوگوں کے خیال میں فوج کی مبینہ کارروائی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کرنے کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے 300 ملین ڈالر اسی شرط پر دئے ہیں کہ اس گروپ کو نشانہ بنانے کیلئے آپریشن کیا جائے-

اگر واقعی یہ سچ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اطمینان کو دھچکا پہنچا ہے- اور امید ہے کہ ہمیں بچانے میں دنیا کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی ہمیں اپنی کمزوریوں، اپنے اوپر بھروسہ اورذمہ دارانہ پالیسی سازی میں مددگار ہوگی-

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: علی مظفر جعفری


لکھاری ایک فری لانس جرلنسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @humayusuf کے نام سے لکھتی ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں