یہ شاید زیادہ بہتر ہوتا کہ پاکستان تحریک انصاف گزشتہ جمعرات کو اپنا 'آزادی مارچ' شروع کرنے سے پہلے ایک کے علاوہ تمام اسمبلیوں سے اپنے منتخب نمائندوں کے استعفوں کا اعلان کردیتی-

اس کا فائدہ یہ بھی ہوتا کہ اچانک لشتم پشتم بنائی جانیوالی حکمت عملی کی جگہ اس سے قدرے بہتر حکمت عملی سامنے آسکتی تھی- یہ بات بالکل واضح ہے کہ خیبر پختونخواہ کو اس سارے ہنگامے کے باہر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ پی ٹی آئی صوبائی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہے-

اس صوبے کی اسمبلی سے باہر آنے کے اثرات سب سے زیادہ ہوتے- لیکن اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ عمران خان کے کارکنوں کے اس جمگھٹ میں جس میں بھانت بھانت کے لوگ شامل ہیں بغاوت ہوجاتی- اسی لیے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا، اگرچہ یہ اقدام بھی دیگر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں، جہاں تحریک انصاف تیسری بڑی پارٹی ہے، لیکن 342 کے ایوان میں اسکے اراکین کی تعداد صرف 34 ہے، پی ٹی آئی کے ناراض کارکنوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی ہے-

گزشتہ سال کے انتخابات میں، پی ٹی آئی سنجیدگی سے اس مغالطے میں مبتلا نظرآتی تھی کہ اسے اسلام آباد میں اقتدار مل جائے گا- وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں بہت پیچھے رہ گئی، اور نرم الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ 'بڑے پیمانے پر دھاندلی' کو اصل مجرم ٹھہرایا گیا- گوکہ، دیگر پارٹیوں نے، جنھیں عوام کے ووٹ توقع سے خاصے کم ملے تھے، بہتر یہی سمجھا کہ اس الزام پر زیادہ زور نہ دیا جائے-

یہ حقیقت کہ اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے میں اس سے کہیں کم لوگ آئے تھے، جبکہ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ دارالحکومت کی سڑکوں پر لاکھوں لوگ آئیں گے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندازوں میں مسلسل مبالغہ آرائی سے کام لے رہے تھے-

اس کے متوازی کینیڈا میں مقیم، ٹیلی ویژن پر دکھائی دینے والی شخصیت طاہرالقادری کی جانب سے چلائی جانیوالی 'انقلابی' تحریک اسکے مقابلے میں زیادہ موثر دکھائی دیتی تھی، لیکن اس میں بھی وہ لاکھوں لوگ موجود نہیں تھے جس کا وعدہ کیا گیا تھا-

دونوں ہی صورتوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاستدانوں کا یہ معمول ہے کہ وہ وعدے تو بہت کرتے ہیں لیکن انھیں پورا نہیں کرتے- اور یہ کہ بعض لحاظ سے ان میں اور ان لوگوں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے جنھیِں وہ ہٹانا چاہتے ہیں-

نواز شریف حکومت کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ، جسے غیر جمہوری کے علاوہ غیر آئینی بھی سمجھا جارہا ہے، کے علاوہ ان دونوں کے مقاصد وسیع معنوں میں ایک دوسرے سے مختلف اور مایوسی پر مبنی ہیں۔

خان نئے انتخابات چاہتے ہیں- شریف حکومت کے ایک سال حکومت میں رہنے کے بعد، بڑی حد تک امکانات یہ ہیں کہ اس کے نتائج کسی حد تک مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن یہ امکان کہ پی ٹی آئی قومی سطح پر اقتدار حاصل کرلے گی، دور دور تک نظر نہیں آتا- یہ ممکن ہے کہ پی پی پی اس سے بہتر کارکردگی دکھائے جو آصف زرداری کی مایوس کن صدارت کے بعد صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے- لیکن اسکے امکانات بھی کوئی خاص ہمت افزا نہیں ہیں-

دوسری جانب، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قادری انتخابات نہیں چاہتے- ان کے پاس اسکا جو متبادل ہے وہ ہے ایک قومی حکومت کا قیام جو پاکستان کی بیشمار بیماریوں کا علاج ہے، بے تحاشہ بدعنوانیوں سے لیکر دولت کی تقسیم میں اور مراعات میں موجود گہری خلیج تک -

اس ویژن میں عوام کے لیے بڑی کشش ہے، لیکن دیکھا جائے تو اس میں بڑے نقص نظر آتے ہیں- دباؤ سے اوپر ٹیکنوکریٹ حکومت کا پہلے بھی تجربہ ہوچکا ہے، خاص طور پر حالیہ عرصہ میں دو آمروں کے دور میں- خواہش کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں ناکامی اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جسے بہت سے پاکستانی نظرانداز کرنا چاہتے ہیں-

قادری نے حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے بجائے جو پیشکش کی ہے وہ اس سے پہلے کبھی اتنی شدت سے واضح نہیں تھی- انھوں نے پیر کے دن بی بی سی کو بتایا کہ ان الزامات میں کہ ان کے فوجی افسروں کے ساتھ تعلقات ہیں، کوئی صداقت نہیں ہے، اور یہ کہ انھوں نے کبھی بھی آرمی چیف یا آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے قائم نہیں کیے-

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ نہ توآمریت چاہتے ہیں اور نہ ہی دینی ریاست، جس چیز نے ان کے ذہن کو اپنی گرفت میں لیا ہے وہ ہے اس طرز کی جمہوریت جو امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین میں رائج ہے-

آپ یہ دیکھ کر حیران ہی ہوسکتے ہیں کہ آیا منہاج القران انٹرنیشنل کا بانی جن کے ویب سائٹ پر بینظیر بھٹو، نواز شریف اور دیگر بہت سے سابقہ وزرائے اعظم کے بیانات نمایاں طور پر موجود ہیں، وہ تمام جمہوریتیں جنھیں وہ رول ماڈلز قرار دیتے ہیں اپنے تمام تر نقائص کے باوجود واضح طور پر سیکیولر ہیں- اپنی تمام تر جذباتی خطابت کے باوجود جو وہ اکثر کرتے رہتے ہیں وہ کوئی احمق نہیں ہیں- لیکن اگر وہ 'س' کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ ان کے حامی اسے پسند نہیں کرینگے تو ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی اور پر منافقت کا الزام لگائیں-

جب قادری منگل کے دن حکومت کو اپنی بقا کے لیے چند گھنٹے دے رہے تھے یہ بات بہت پہلے واضح ہوچکی تھی کہ انتظامیہ کو سب سے سنگین خطرہ فوج کی طرف سے ہے، جسے 1999 میں نواز شریف کو ہٹانے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی تھی، اور جس پر سارے ملک میں خوشیاں منائی گئی تھیں اگرچہ کہ جن لوگوں نے جلدبازی سے کام لیا تھا انھیں بعد میں اس جوش و خروش پر افسوس ہوتا تھا جس کا اظہار انھوں نے پرویز مشرف کی کاک-پٹ بغاوت پر کیا تھا-

مذکورہ بالا سطروں میں جو کچھ بھی کہا گیا اس کا مقصد نواز شریف کا دفاع کرنا نہیں ہے، لیکن کسی بھی سیاسی تنظیم کے لیے جن کے حامیوں کی تعداد اچھی خاصی ہے یہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی کوششوں کا رخ اگلے انتخابات میں انھیں جمہوری طور پر شکست دینے پر مرکوز کریں بجائے اس کے کہ نیم دلی سے سیاسی انقلاب کی تحریک چلائیں جو پریشانی کا سبب بن سکتا ہے-

انگلش میں پڑھیں۔


ترجمہ: سیدہ صالحہ

یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں