فرگوسن پچھلے مہینے ہونے والے واقعات پر توقعات کے مطابق مصر اور ایران جیسے ممالک کے سرکاری ذرائع کی جانب سے سوشل میڈیا پر امریکا کا مضحکہ اڑاتے جذبات کا اظہار کیا گیا۔

ویسے بھی جب دوسری حکومتیں (اسرائیل کے علاوہ) اپنے داخلی معاملات سے ایسے نمٹتی ہیں، تو امریکا انہیں مشورے دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتا۔

اس لیے ہمیشہ امریکی مشوروں کی زد میں رہنے والوں کی جانب سے مشورے کی شکل میں امریکا کا مذاق اڑایا جانا کسی تعجب کی بات نہیں ہے۔ غزہ کی پٹی، اور غیزی پارک کے واقعات میں تشدد کا نشانہ بننے والوں کی جانب سے فرگوسن کے مظاہرین کو آنسو گیس اور گولیوں سے بچنے کے لیے دیے جانے والے مشورے بھی کافی دلچسپ ہیں۔

اس پورے معاملے میں ایک بات سب سے زیادہ دلچسپ ہے، وہ یہ کہ عوامی جذبات کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات تقریباً ہمیشہ ایک ہی ذریعے سے آتے ہیں۔ حال ہی میں جب اسرائیل غزہ میں جاری آپریشن کے لیے اسلحے کی کمی کا شکار تھا، تو امریکا نے فوراً اپنے اس اتحادی کو اسلحہ سپلائی کیا۔ مصر اور ترکی بھی امریکی اسلحے کے خریداروں میں سرفہرست ہیں۔

امریکی ارباب اختیار کے لیے سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ داخلی طور پر اس طرح کے واقعات اس کی بیرون ممالک مہمات کی عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ ملک بھر میں پولیس فورس کو آرمی کے سرپلس ہتھیاروں سے لیس کر دیا گیا ہے۔ بکتر بند گاڑیوں اور جنگی لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں کے مناظر نے کچھ لوگوں کو فرگوسن کو فرگوستان کہنے پر مجبور کر دیا۔

18 سالہ مائیکل براؤن کی موت پولیس کی بلاوجہ فائرنگ کا نتیجہ ہے، لیکن اس کو اتنی توجہ ہر گز نا ملتی، اگر مظاہرے اور فسادات نا پھوٹ پڑتے۔ کچھ وجہ یہ بھی تھی، کہ نوجوان کی لاش سڑک پر 4 گھنٹے کے لیے پڑی رہی، جس کی وجہ سے کئی لوگوں کو وہ وقت یاد آگیا، جب ہجوم کی جانب سے لوگوں کو مار دیے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو عبرت کے طور پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

افسوس کی بات ہے، کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ فرگوسن میں اتنے بڑے پیمانے پر ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پولیس کی جانب سے سیاہ فام لوگوں کو نشانہ بنایا جانا معمول کی بات ہے۔ ایسے معاملات میں قتل تو کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں، لیکن کون اس بات کا انکار کر سکتا ہے، یہ واقعات اسی مائنڈسیٹ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں، جن کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ چیک کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، جیسے کہ گارجین کے جان سوین رپورٹ کرتے ہیں، کہ "میسوری کے اٹارنی جنرل کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پولیس نے ہر ایک سفید فام ڈرائیور کے مقابلے میں سات سیاہ فام ڈرائیوروں کو روکا، جبکہ سیاہ فام ڈرائیوروں کی سفید فام ڈرائیوروں کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ چیکنگ کی گئی، بھلے ہی سفید فام لوگوں کے غیر قانونی چیزیں رکھنے کے امکانات زیادہ تھے"۔ ایک اور اہم عدد جو انہوں نے اور دوسرے ذرائع نے بتایا، وہ یہ کہ فرگوسن میں دو تہائی آبادی سیاہ فام ہے، لیکن وہاں کے 53 میں سے 50 پولیس افسران سفید فام ہیں۔

ایک اور دلچسپ بات یہ، کہ فرگوسن کو تقسیم کرنے والی لکیر کے شمال میں ڈیلمار بولیورڈ کے علاقے میں 98 فیصد آبادی سیاہ فام ہے، جبکہ اوسط آمدنی اٹھارہ ہزار ڈالر ہے، جبکہ اس کے جنوب میں جہاں 73 فیصد آبادی سفید فام ہے، وہاں اوسط آمدنی پچاس ہزار ڈالر ہے۔

باسکٹ بال کے مشہور کھلاڑی کریم عبدالجبار نے ٹائم میگزین سے بات کرتے ہوئے فرگوسن کے تناظر میں کہا تھا کہ ہمیں پوری سچوئیشن سے نمٹنے کی ضرورت ہے، نا کہ اسے صرف نسلی تعصب کے ایک اور واقعے کی طرح دیکھا جانا چاہیے، بلکہ طبقاتی جنگ کی طرح دیکھنا چاہیے۔

کریم عبدالجبار کا کہنا تھا کہ صرف غم و غصے کا اظہار کافی نہیں ہے۔ "اگر ہمارا ایک مخصوص ایجنڈا نہیں ہو گا، کہ ہمیں کیا کیا کس کس طرح تبدیل کرنا ہے، تو ہم بار بار بس اپنے پاروں کی لاشیں دیکھیں گے۔

اس کے علاوہ کافی مقامات ہیں جہاں نسل اور طبقات کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے، کہ سفید فام لوگوں کے مقابلے میں سیاہ فام لوگوں میں زیادہ غربت ہے۔ اس بات پر بھی حیرانی نہیں ہونی چاہیے، کہ شدید غربت کی وجہ سے کچھ چھوٹے جرائم سرزد ہو ہی جاتے ہیں، یا یہ کہ افریقی امریکیوں کی بڑی تعداد کا جیلوں میں بند ہونا ایک خطرناک سلسلے کو جنم دیتا ہے۔

سول رائٹس ایکٹ کے نافذ ہونے کے آدھی صدی بعد بھی فرگوسن جیسے واقعات کے رونما ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پورے عرصے میں حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ بلا شبہ اس دوران بہت کچھ تبدیل ہوا ہے، لیکن تفریق کے واقعات پھر بھی سر اٹھاتے رہے ہیں، اور یہ اس بات کی یقین دہانی ہے کہ منافرت کو قانون سازی کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن پھر بھی، اداروں کے ذریعے نسلی منافرت سے نمٹنے کے پختہ ارادوں پر مبنی اقدامات ضرور رنگ لائیں گے۔ پیر کے روز مائیکل براؤن کے جنازے میں پادری شارپٹن نے پولیسنگ کے حوالے سے اقدامات پر زور دیا، جس میں پالیسیوں، رویوں، بھرتیوں، ٹریننگ، اور اسلحے کے حوالے سے اقدامات بھی شامل ہوں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ باراک اوباما کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھی نسلی منافرت سے پاک معاشرہ اب تک ایک خواب ہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں