مہرین کوثر سے معذرت

اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2014
ریاست اور سیکیورٹی ادارے بچوں کی تعلیم میں لاحق خطرات دور نہیں کر سکتے تو ہاتھ اٹھا کر اپنی ناکامی قبول کیوں نہیں کرتے۔
ریاست اور سیکیورٹی ادارے بچوں کی تعلیم میں لاحق خطرات دور نہیں کر سکتے تو ہاتھ اٹھا کر اپنی ناکامی قبول کیوں نہیں کرتے۔

ہر روز ہم اس بات کا سامنا کرتے ہیں کہ کس طرح ہم اپنے لوگوں، خاص طور پر معاشرے کے خطرے میں موجود طبقات کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، اور کس طرح ہم تمام مشکلات کے سامنے جم کر کھڑے ہوجانے والوں، ملالہ جیسے نوبل انعام جیتنے والوں کی تکریم کرنے میں ناکام ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اپنی پوزیشن ایک انچ تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔

یا تو ہم اس معاملے میں کچھ کر نہیں سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ ہاں یہی سچ ہے۔ ہم غصے کا اظہار کرنے میں بہت اچھے ہیں، اور سوشل میڈیا پر ہر کسی کی دھجیاں اڑانے کو تیار رہتے ہیں، لیکن ہمیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔

میں آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں مہرین کوثر کون ہے؟ سچ سچ بتائیں کیا آپ کو یاد ہے؟ آپ کو اشارہ دیتا چلوں کہ اس سال مہرین اور ان کے گھر والے ایران میں زیارات کے بعد کوئٹہ اپنے گھر واپس آرہے تھے۔

جب ان کی بس بلوچستان کے قصبے مستونگ پہنچی، جو لشکرِ جھنگوی کے مضبوط گڑھ کی حیثیت سے بدنام ہے، تو ایک خوفناک بم دھماکے کا نشانہ بن گئی۔

اب یاد آیا؟

یونیورسٹی کی طالبہ مہرین کوثر شدید زخمی ہوئیں، لیکن انہیں جلد ہی ہسپتال میں ہوش آگیا۔ جب وہ ہوش میں آئیں تو انہیں یہ دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ ان کی والدہ اور بہن دونوں جو ان کے ساتھ بس میں موجود تھیں، اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔

کچھ دن تک حکومت اپنے خوابِ خرگوش سے جاگ اٹھی، لیکن جن 29 لوگوں کی اس دھماکے میں جانیں گئیں، ان کے بارے میں کچھ نہیں کیا جاسکا۔ ہاں اتنا کیا گیا کہ کچھ زخمیوں کو علاج کی غرض سے دوسرے شہروں مثلاً کراچی منتقل کر دیا گیا۔

جب اس بہادر اور لڑکی کی کراچی کے ہسپتال میں نگہداشت کی جارہی تھی، تب میں نے پہلی بار اس کے حالات کے بارے میں پڑھا تھا۔ کچھ سول سوسائیٹی کے ممبران نے زخمیوں بشمول مہرین کوثر کی مدد کے لیے خود کو منظم کیا۔

انہی کی بدولت کوئٹہ کی وومن یونیورسٹی میں زولوجی کی طالبہ کے فولادی جذبے کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا۔ مہرین نے خود کو اس بم حملے کی متاثر کے طور پر دیکھنے سے انکار کردیا، جس میں ان کی والدہ اور بہن اس دنیا سے رخصت ہوگئیں، اور دہشتگردوں کے عزائم سے بچ نکلنے پر فخر کا اظہار کیا۔

ملالہ یوسفزئی کی طرح تمام مہرین کوثر دہشتگردی، قتل و غارت، اور جنون کو ہونے والی شکست کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ یہ دونوں اور ان جیسی ہزاروں دوسری لڑکیاں اس معاشرے کے لیے امید کی کرن، آئیکون، اور رول ماڈل ہیں۔

لیکن ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔

لیکن ایک ایسا معاشرہ، جہاں ملالہ یوسفزئی کے خلاف ہر منفی افواہ پر یقین کیا گیا، ہر منفی پروپیگنڈے کو نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس تمام جھوٹ کو آگے بھی پھیلایا گیا، وہاں بھول جانا تو کافی چھوٹی بات ہے، اور قابلِ معافی ہے۔

لیکن انہیں بھلایا نہیں جائے گا۔ عید پر ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مہرین کوثر نے ٹوئٹر پر پیغام میں لکھا "سب کو عید مبارک، آئیں اس عید پر امید کریں کہ اہلِ تشیع اور ہزارہ برادری کی نسل کشی ختم ہوجائے، اور ایک بہتر صبح طلوع ہو"۔

کسی نے مہرین سے پوچھا کہ زخموں سے ریکور ہوجانے کے بعد کیا انہوں نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کر دی ہے؟ انہوں نے انتہائی صاف گوئی سے جواب دیا کہ یونیورسٹی کی بس ان کے ہزارہ علاقے تک اب نہیں آتی، اور نہ ہی ان کے لیے سیکیورٹی کی صورتحال اتنی بہتر ہے کہ وہ یونیورسٹی جاسکیں۔

اگر یہ نوجوان اور پرعزم بچی یونیورسٹی نہیں جاسکتی، تو اس میں کس کی غلطی ہے؟ اپنے پیاروں کو کھو دینے کا ذاتی نقصان اتنا شدید ہے، کہ مضبوط ترین شخص بھی اس کے سامنے نہ ٹک سکے، لیکن اس لڑکی نے یہ برداشت کیا۔ لیکن تعلیم جاری نہ رکھ سکنا ہماری اجتماعی شکست اور ناکامی ہے۔

میں شورش برپا نہیں کر سکتا، اور نہ ہی پوائنٹ اسکورنگ کرسکتا ہوں، کیونکہ میرے پاس اسکور کرنے کے لیے کوئی پوائنٹ نہیں۔ میں صرف اور صرف اپنے یونیورسٹی کے دوست اور نیشنل پارٹی کے لیڈر حاصل بزنجو، جن کی پارٹی بلوچستان کی اتحادی حکومت کی قیادت کر رہی ہے، سے اپیل کرسکتا ہوں کہ وہ کچھ کریں۔

میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے اپیل کروں گا کہ وہ ہزارہ برادری کی لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانا اپنا ذاتی مشن بنائیں۔ میں ایف سی سے کہتا ہوں کہ جس شدت سے اس نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو کچلا ہے، اس سے زیادہ شدت سے لشکرِ جھنگوی کے خلاف ایکشن لیں جو ہمارے معاشرے کو تار تار کر رہا ہے۔

اگر میرے اپیل کرنے سے نتائج حاصل ہوتے ہیں، تو میں ان سب سے گڑگڑا کر اپیل کرنے کے تیار ہوں۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ میری بیٹیوں سے تعلیم کا حق چھین لیا جائے۔ نہ ہی میں یہ برداشت کرسکتا ہوں کہ مہرین کوثر صرف اس دن کی امید میں گھر بیٹھی رہے جس دن اسے یونیورسٹی دوبارہ جانے کا موقع ملے گا۔

ہاں ہوسکتا ہے وہ دن آئے۔ لیکن اگر وہ دن کل کا دن نہیں ہے، تو کیا ہمارے منتخب نمائندوں اور سیکیورٹی حکام کے لیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ ہاتھ اٹھا دیں اور کہیں کہ ہم سے نہیں ہوگا، اور خاموشی سے گھر چلے جائیں۔

مطالبہ ریاست کے اسٹریٹیجک اثاثوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا نہیں اور نہ ہی حکمران جماعت کے فرقہ وارانہ اتحادیوں کے خلاف آپریشن کا ہے۔ صرف اتنا مطالبہ ہے کہ اس بہادر لڑکی، پاکستان کی شہریت رکھنے والی لڑکی کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کا تحفظ کیا جائے۔

خطرے کی زد میں موجود اقلیتی گروپوں کی جانب ہمارا رویہ خواتین کے لیے ہمارے رویے سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ اس رویے کو صرف شرمناک لاتعلقی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر واقعات میں ہم بچ نکلتے ہیں کیونکہ نشانہ بننے والوں کی کوئی شناخت نہیں ہوتی، لیکن مہرین کوثر کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

اگر ان کی تعلیم اب جاری نہیں رہ سکتی، تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وزیر اعظم سے لے کر ایک عام سیکیورٹی اہلکار تک، سبھی ذمہ داران اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بتائیں کہ کیوں وہ اس کی مدد نہیں کرسکتے، اور کم از کم معافی ہی مانگ لیں؟

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں