آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی یادگار فتوحات

27 اکتوبر 2014
پاکستانی کھلاڑی دبئی ٹیسٹ میں فتح کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستانی کھلاڑی دبئی ٹیسٹ میں فتح کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

دبئی میں آسٹریلیا کے خلاف 221 رنز کی جیت پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی یادگار ترین فتوحات میں سے ایک ہے۔ ایک انتہائی ناتجربہ کار باؤلنگ لائن کے ساتھ پاکستان نے جس طرح عالمی نمبر 2 آسٹریلیا کو چت کیا، اسے اگر معجزہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ کس نے توقع کی ہوگی کہ اپنے تمام بہترین باؤلرز سعید اجمل، عمر گل، محمد عرفان، جنید خان حتیٰ کہ وہاب ریاض تک سے محروم اسکواڈ آسٹریلیا کو اتنے بڑے مارجن سے شکست دے گا؟ پھر بیٹنگ لائن کا جو حال ابھی ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز میں رہا ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حالات قیادت کے ایک بڑے بحران کی طرف جانے لگے تھے کہ دبئی ٹیسٹ کی جیت تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آ گئی ہے۔ تمام ہی کھلاڑیوں نے بہترین کارکردگی پیش کی بالخصوص یونس خان، سرفراز احمد، ذوالفقار بابر، یاسر شاہ، احمد شہزاد، مصباح الحق، اسد شفیق اور اظہر علی نے اپنی ذمہ داریاں باحسن و خوبی انجام دیں۔

یہی موقع ہے کہ ہم ماضی میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی چند یادگار فتوحات کی یاد تازہ کریں۔ ایک ایسی ٹیم کے جس کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ برا نہیں بلکہ بدترین ہے۔ اگر دبئی ٹیسٹ کو بھی شامل کریں تو کل 58 مقابلوں میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف صرف 13 فتوحات حاصل کی ہیں اور 28 میچز میں اسے شکست ہوئی ہے۔ ان میں 1999ء سے 2010ء کے درمیان مسلسل 13 مقابلوں میں شکست بھی شامل ہے۔ پاک-آسٹریلیا کرکٹ کا آغاز 1956ء میں اس وقت جب دورۂ ہندوستان پر جانے سے قبل آسٹریلیا نے پاکستان میں ایک ٹیسٹ کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پاکستان کے تیز باؤلرز نے اس موقع کو ایک یادگار مقابلے میں بدل دیا۔

کراچی ٹیسٹ 1956ء

صدر اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین سہروردی 1956 کا کراچی ٹیسٹ دیکھتے ہوئے۔
صدر اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین سہروردی 1956 کا کراچی ٹیسٹ دیکھتے ہوئے۔

اکتوبر 1956ء میں آسٹریلیا کے دورۂ پاکستان میں صرف ایک ٹیسٹ مقابلہ طے پایا جو کراچی میں کھیلا گیا اور فضل محمود اور خان محمد کی باؤلنگ کی بدولت ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آسٹریلیا پاکستان پہنچتے ہی صرف 52 رنز پر اپنے 6مایہ ناز بیٹسمینوں نے محروم ہوگیا تھا اور یہ سب بلے باز 'نیلی آنکھوں' والے فضل محمود کا شکار بنے۔ خان محمد نے باقی چار وکٹوں پر ہاتھ صاف کرکے آسٹریلیا کی پہلی اننگز صرف 80 رنز پر ختم کردی۔ جواب میں 70 رنز پر 5 وکٹیں گنوانے کے بعد کپتان عبد الحفیظ کاردار اور وزیر محمد نے 104 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ کاردار 69 اور وزیر 67 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے اور پاکستان نے 119 رنز کی برتری کے ساتھ 199 رنز بنائے اور آسٹریلیا کو ایک مرتبہ پھر فضل محمود اور خان محمد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس مرتبہ دونوں نے کسی دوسرے باؤلر کو وکٹ نہ لینے دی اور 187 رنز پر آسٹریلیا کو چت کردیا۔ رچی بینو 56 اور ایلنڈیوڈسن 37 رنز کے ساتھ قابل ذکر بیٹسمین رہے۔ فضل محمود نے دوسری اننگز میں 7 وکٹیں حاصل کرکے میچ میں 13 وکٹوں کا کارنامہ انجام دیا جو آج 58 سال گزرجانے کے بعد بھی پاک-آسٹریلیا مقابلوں میں کسی بھی پاکستانی باؤلر کی بہترین کارکردگی ہے۔ خان محمد نے دوسری اننگز میں تین وکٹیں حاصل کرکے اپنی مجموعی وکٹوں کی تعداد 7 کی۔ صرف 69 رنز کا ہدف پاکستان نے باآسانی ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا اور یوں سیریز کا واحد ٹیسٹ 9 وکٹوں سے جیت لیا۔

سڈنی ٹیسٹ 1977ء

عمران خان نے پاکستان کو آسٹریلیا کی سرزمین پر پہلی فتح دلائی
عمران خان نے پاکستان کو آسٹریلیا کی سرزمین پر پہلی فتح دلائی

عبدالحفیظ کاردار، فضل محمود، محمد برادران، خان محمد اور امتیاز احمد سمیت پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑی ایک، ایک کرکے کرکٹ کو خیرباد کہتے چلے گئے اور قومی کرکٹ سخت بحران سے دوچار ہوگئی۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ 20 سالوں تک پاکستان آسٹریلیا کے خلاف کوئی ٹیسٹ نہ جیت پایا۔ 1959ء میں ہوم سیریز بھی ہارا اور 1972ء میں دورۂ آسٹریلیا میں بھی بُری طرح شکست کھائی اور پاکستان کرکٹ نے اس وقت تک سر نہیں اٹھایا جب تک 1977ء میں عمران خان کی باؤلنگ نے تاریخ کا دھارا نہیں پلٹ دیا۔ سیریز میں ایک-صفر کے خسارے کے بعد عمران خان اور سرفراز نواز کی جوڑی نے پاکستان کو وہ تاریخی کامیابی دلائی جو 70ء کی دہائی میں سن شعور کو پہنچنے والے افراد کے دلوں کو آج بھی گرماتی ہے۔ پہلی اننگز میں عمران خان کی 6 اور سرفراز نواز کی 3 وکٹوں کی بدولت آسٹریلیا 211 رنز تک محدود رہا۔ اب مقابلے میں اپنا سکہ جمانے کے لیے پاکستان کو اچھی بیٹنگ کی ضرورت تھی اور ہارون رشید کے 57، ماجد خان کے 48 رنز کے بعد آصف اقبال اور میانداد کی سنچری پارٹنرشپ نے پاکستان کو واضح برتری حاصل کرنے کا بہترین موقع عطا کیا۔ آصف اقبال کے 120 اور جاوید میانداد کے 64رنز کی بدولت پاکستان نے 360 رنز بنائے اور یوں 149 رنز کی برتری لے لی۔ دوسری اننگز میں عمران خان اور سرفراز نواز بھوکے شیروں کی طرح آسٹریلیا بیٹنگ لائن پر جھپٹے اور اس کے پرخچے اڑا دیے۔ آسٹریلیا اپنی کچھار میں صرف 180 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور سرفراز نے بھی تین وکٹیں حاصل کیں۔ یعنی میچ میں عمران خان کے 12 اور سرفراز نواز کے 6 شکار رہے۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 32 رنز کا ہدف ملا جو اس نے باآسانی دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرکے سیریز برابر کردی۔ یہ آسٹریلیا کی سرزمین پر پاکستان کی پہلی فتح اور بلاشبہ عمران خان کی آمد کا حقیقی اعلان تھا۔

میلبورن ٹیسٹ 1979ء

سرفراز نے صرف 1 رن دے کر 7 آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا
سرفراز نے صرف 1 رن دے کر 7 آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا

پاکستان 1979ء کے اوائل میں آسٹریلیا کے دورے پر گیا جہاں میلبورن میں پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا۔ 382 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر 305 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ یعنی صرف 77 مزید رنز درکار تھے اور یہاں سرفراز نواز نے کرکٹ تاریخ کا یادگار ترین اسپیل پھینکا۔ صرف 1 رن دے کر 7 وکٹیں اور پاکستان مقابلہ 71 رنز سے جیت گیا۔ پہلی اننگز میں پاکستان نے 196 اور آسٹریلیا نے صرف 168 رنز بنائے تو یہ 'لو-اسکورنگ' میچ نظر آتا تھا لیکن دوسری اننگز میں پاکستان کی جانب سے ماجد خان نے شاندار سنچری بنائی اور ظہیرعباس نے بھی نصف سنچری کے ساتھ ان کا بہترین ساتھ دیا اور 353 رنز کا مجموعہ کھڑا کرکے آسٹریلیا کو 382 رنز کا بہت بڑا ہدف دے دیا۔ جس کے تعاقب میں آسٹریلیا کو کم ہیوز اور ایلنبارڈر کی 177 رنز کی پارٹنرشپ لب بام تک لے آئی لیکن جب میچ مکمل طور پر آسٹریلیا کی گرفت میں تھا تو ریورس سوئنگ کے بانی سرفراز نواز نے محض چند گیندوں میں مقابلے کا خاتمہ کردیا۔ اگر آسٹریلیا کے کپتان گراہم یالپ رن آؤٹ نہ ہوتے تو شاید سرفراز احمد تمام 10 وکٹیں حاصل کرکے جم لیکر کا عالمی ریکارڈ برابر کردیتے۔

کراچی ٹیسٹ 1994ء

شین وارن کی آخری گیند بیٹسمین اور وکٹ کیپر سب کو دھوکہ دے گئی اور پاکستان ایک وکٹ سے میچ جیت گیا
شین وارن کی آخری گیند بیٹسمین اور وکٹ کیپر سب کو دھوکہ دے گئی اور پاکستان ایک وکٹ سے میچ جیت گیا

ماضی کے عظیم امپائر ڈکی برڈ سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے امپائرنگ کیریئر کا سب سے یادگار میچ کون سا ہے؟ تو ان کا جواب تھا پاک-آسٹریلیا کراچی ٹیسٹ 1994ء۔ یہ وہ مقابلہ تھا جس نے سنسنی خیزی میں اپنے زمانے کے ون ڈے میچز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور اس کا اختتام اس طرح ہوا کہ میدان میں موجود دونوں ٹیموں کا کوئی کھلاڑی اس کو کبھی نہیں بھولے گا۔ پاکستان کو سیریز کا یہ پہلا ٹیسٹ جیتنے کے لیے 56 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی 9 وکٹیں گرچکی تھیں۔ انضمام الحق اور مشتاق احمد کی رفاقت نے پاکستان کو جیت کے بالکل قریب پہنچا دیا جب انضمام الحق شین وارن کی گیند پر فاتحانہ شاٹ لگانے کے لیے کریز سے باہر نکلے، گیند ان کے بلّے کو چھوئے بغیر پیچھے نکل گئی جہاں کھڑے وکٹ کیپر ای این ہیلی نے اسٹمپنگ کرنے کا آسان موقع گنوایا اور بائے کے 4 رنز کے ساتھ پاکستان نے صرف ایک وکٹ سے میچ جیت لیا۔ انضمام 58 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے واپس آئے۔ پاکستان پہلی اننگز میں 81 رنز کے خسارے میں گیا تھا جب آسٹریلیا کے 337 رنز کے جواب میں پاکستان صرف 252 رنز پر آؤٹ ہو گیا تھا۔ دوسری اننگز میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے اپنی کیریئر کی یادگار ترین کارکردگیوں میں سے ایک دکھائی اور آسٹریلیا کو صرف 61 رنز کے اضافے سے 8 وکٹوں سے محروم کردیا لیکن پھر بھی آسٹریلیا 232 رنز بنانے میں ضرور کامیاب رہا اور پاکستان کو جیتنے کے لیے 314 رنز کا ہدف ملا۔ جب تک کپتان سلیم ملک کریز پر موجود تھے پاکستان بہترین پوزیشن میں تھا لیکن ان کے آؤٹ ہوتے ہی شین وارن میچ پر چھا گئے اور 184 رنز تک پاکستان 7 وکٹیں گنوا چکا تھا۔ راشد لطیف اور انضمام الحق کی 52 رنز کی شراکت داری نے کچھ امکانات پیدا کیے تو راشد اور وقار تھوڑے وقفے سے آؤٹ ہوگئے اور معاملہ 'آخری سپاہی ' تک پہنچ گیا جہاں انضمام کی معجزانہ اننگز نے پاکستان کو تاریخی فتح دلائی۔ بعد ازاں یہی نتیجہ سیریز میں فیصلہ کن ثابت ہوا کیونکہ اگلے دونوں مقابلے بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوئے۔ یوں پاکستان نے سیریز ایک-صفر سے جیت لی، یہ آخری موقع تھا جب آسٹریلیا کے خلاف کسی سیریز میں پاکستان نے فتح حاصل کی۔

ہیڈنگلے ٹیسٹ 2010ء

محمد عامر اور محمد آصف نے رکی پونٹنگ کے آسٹریلیا کو صرف 88 رنز پر ٹھکانے لگا دیا
محمد عامر اور محمد آصف نے رکی پونٹنگ کے آسٹریلیا کو صرف 88 رنز پر ٹھکانے لگا دیا

ایک ایسی جیت تو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں نیا موڑ ثابت ہو سکتی تھی۔ نئی ٹیم، نیا کپتان، تیز باؤلرز کی نئی جوڑی اور نوجوان بلے باز! ان سب کے ساتھ پاکستان نے آسٹریلیا کو ہیڈنگلے میں شکست دی لیکن چند ہی دنوں بعد پاکستان کے کھلاڑی بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں دھر لیے گئے اور سارے خواب ادھورے رہ گئے۔ مذکورہ پاک-آسٹریلیا سیریز کی میزبانی انگلینڈ نے حاصل کی تھی، جس کا دوسرا ٹیسٹ لیڈز میں کھیلا گیا تھا جہاں محمد عامر اور محمد آصف کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے آسٹریلیا پہلی اننگز میں 88 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن شین واٹسن، سائمن کیٹچ، رکی پونٹنگ، مائیکل کلارک اور مائیکل ہسی پر مشتمل تھی اور اس ٹیم کو تہرےہندسے میں پہنچنے سے پہلے ڈھیر کرنا پاکستان کے 'برق رفتار' باؤلرز کا بڑا کارنامہ تھا۔ پاکستان نے پہلی اننگز میں 258 رنز بنائے اور 170 رنز کی بڑی برتری حاصل کی۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگ میں مائیکل کلارک، اسٹیون اسمتھ اور رکی پونٹنگ کی نصف سنچریوں کی بدولت 349 رنز بنا کر میچ میں واپسی کی بھرپور کوشش کی لیکن پاکستان کو اتنا بڑا ہدف نہ دے پائے۔ 180 رنز کے تعاقب میں پاکستان صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 137 رنز تک پہنچ گیا جب کہانی میں نیا موڑ آیا، بین ہلفنہاس اور ڈوگی بولنجر کے سامنے 42 رنز کے اضافے پر 6 وکٹیں گرگئیں لیکن پھر بھی لڑھکتے اور گرتے پڑتے پاکستان جیت تک پہنچ ہی گیا۔ تین وکٹوں کی اس فتح کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ یہ 15 سال کے بعد کسی بھی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی پہلی جیت تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Rafi Oct 28, 2014 11:18am
Very interesting and informative article. Thx for sharing.