کرپشن کے باعزت نام

14 نومبر 2014
ہمارے معاشرے میں خود کو حاصل شدہ رعایات کا استحصال کرنا حق کہلاتا ہے، اس لیے تبدیلی لانے والوں کو مزید کوشش کرنا ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں خود کو حاصل شدہ رعایات کا استحصال کرنا حق کہلاتا ہے، اس لیے تبدیلی لانے والوں کو مزید کوشش کرنا ہوگی۔

کچھ لوگوں کے نزدیک کرپشن، جسے فوری پیسہ اور کک بیک بھی کہا جاتا ہے، کسی بھی معیشت اور معاشرے میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ اسے ایک ایسی گریس کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے سسٹم چلتا رہتا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے جن باتوں کا دھیان نہیں رکھا جاتا، وہ وہ مسائل ہیں، جو تب پیدا ہوتے ہیں جب جن لوگوں پر اعتماد کیا جائے، وہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں۔

1947 میں جو حصے پاکستان بنے، ان علاقوں میں ہندو اور سکھ بہت سی جائیدادیں اور زمینیں چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے تھے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں اور سکھوں جتنے صاحبِ ثروت نہیں تھے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ جب وہ ان علاقوں میں آئے، تو ان کے لیے اثاثے اس سے زیادہ موجود تھے، جتنے وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے تھے۔

لیکن اس دور کی کئی کہانیاں اثاثوں کی تقسیم میں ہونے والے فراڈز کے بارے میں ہیں، جن میں غیرمستحق لوگوں کو زیادہ اثاثے ملے، جبکہ کئی مستحق گھرانے ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام کلیمز میرٹ پر نہیں حل کیے گئے تھے، اور وہ افراد جنہیں اثاثوں کی منصفانہ تقسیم کا اختیار دیتے ہوئے اعتماد کیا گیا تھا، وہ اپنی ذمہ داری نہیں نبھا سکے۔

یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ اوائل دور میں ہونے والی اس کرپشن، اور اعتماد کے توڑے جانے کا قوم کی نفسیات پر کیا اثر ہوا تھا۔ لیکن اس نے مستقبل کے کئی معاملات کی راہ ہموار کی۔ زمین کی اب بھی پاکستان میں سب سے زیادہ طلب ہے۔ زمینوں میں سرمایہ کاری آج کا سب سے پرکشش کاروبار ہے، اور پلاٹوں کے لیے ملک کے امیر اور طاقتور لوگ اب بھی کھیل کھیلتے ہیں۔ ہمارے کچھ نئے ہیرو لینڈ ڈویلپرز ہیں۔

کرپشن کی تعریف وسیع پیمانے پر کرنا اور اسے سمجھنا ضروری ہے۔ ایسا ہر دفعہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔

وہ لوگ جو خود پر عائد ذمہ داریوں کے باجود اپنے وقت، توانائی، اور وسائل کا ٹھیک استعمال نہیں کرتے، وہ اپنے اوپر کیے گئے اعتماد کو توڑ رہے ہیں۔ جب ہمارا مقصد انسانی بھلائی ہو، تو اچھی نیتیں اور صحیح طریقے ہمارے رویے اور ہماری جسمانی حرکات و سکنات میں واضح طور پر نظر آنے چاہیئں۔

اپنے اوپر کیے گئے اعتماد کو توڑنا صرف یہ نہیں ہے کہ ایک ٹیچر پیسے لے کر طلبا کو پاس کرے، بلکہ اگر وہ اپنی قابلیت کے مطابق نہیں پڑھا رہا، یا پڑھانے میں اتنی کوشش نہیں کررہا تو بھی وہ اپنے وعدے کو پورا نہیں کر رہا، اور نہ ہی اپنے پروفیشن اور اپنے آپ سے سچا کہلوا سکتا ہے۔ کردار کے معیارات کو کافی بلند ہونا ہوگا۔ اور ان میں سے کئی معیارات کو ذاتی ہونا چاہیے، لیکن سوسائٹی کو بھی افراد کی بہتر کارکردگی یقینی بنانے کے لیے کئی بیرونی معیارات بنانے پڑیں گے۔

معاشرے کے لیے مسئلہ اس وقت بدترین روپ اختیار کر لیتا ہے، جب لوگوں کے لیے کرپشن کی ایک خاص سطح متوقع ہوجائے۔ اس وقت ہر عمل، ہر نیت، اور ہر اقدام مشکوک بن جاتا ہے، اور کاموں کے نتائج حاصل کرنے کے بجائے زیادہ توانائی اس بات پر صرف ہوجاتی ہے کہ ارادوں اور اقدامات کی سچائی کو کس طرح ثابت کیا جائے۔

حکومت نے راولپنڈی میٹرو بس پراجیکٹ عوامی فائدے کے لیے شروع کیا یا اس لیے تاکہ پیسہ بنایا جاسکے؟ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ پراجیکٹ پر اٹھنے والے اخراجات اصل قیمت سے کہیں زیادہ بتائے گئے ہیں، اور یہ کہ اس کی حتمی قیمت بجٹ میں بتائے گئے تخمینے سے بھی کہیں زیادہ نکلے گی۔ اس سب میں کیا حقیقت ہے؟

حقیقت کو ایک طرف رکھیں اور یہ دیکھیں کہ اس معاملے پر کتنا وقت اور توانائی ضائع ہوئی ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا تھا کہ ہم اس پراجیکٹ کی ضرورت، اس کی لاگت، اور اس پر اٹھنے والے حکومتی اخراجات کا ایک شفاف تجزیہ کرا لیتے؟

کرپشن، وی آئی پی کلچر، اور مراعات وغیرہ پر آج کل جاری بحث حقیقت میں اعتماد اور معیار کے وسیع خیالات کے بارے میں ہے۔ اگر ایک وزیر پی آئی اے کی ایک فلائٹ کو لیٹ کرادیتا ہے، تو کیا یہ اس کو حاصل رعایت کا حصہ نہیں؟ اگر وزیر اعظم نیویارک میں ایک نہایت مہنگے کمرے میں رہتے ہیں، تو اس میں مسئلہ کیا ہے، جبکہ وہ دوسرے سربراہانِ مملکت کی طرح سستے ہوٹل میں بھی رہ سکتے تھے۔

سوسائٹی ان اونچی پوزیشنز پر موجود لوگوں کو یہ بتا رہی ہے کہ جن عہدوں پر وہ ہیں، وہ صرف مراعات کا نام نہیں بلکہ ذمہ داری کا بھی ہے۔ ہم وزیر اعظم کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن ہمیں سڑکوں کو بند کردینے کی منطق نہیں سمجھ آتی۔ اگر دوسرے سربراہانِ مملکت کے لیے ایک رات کے 1000 ڈالر کرائے والا کمرہ ٹھیک ہے، تو پھر اس سے کچھ بھی زیادہ خرچ کرنا ناقابلِ قبول ہے اور اعتماد شکنی ہے۔

جو لوگ اختیار اور طاقت کی پوزیشنز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یا اٹھا چکے ہیں، وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ انہیں غیرضروری خواہشوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ ان لوگوں کو بھی پسند نہیں کریں گے جو انہیں یہ بتائیں کہ وہ اسراف پسند ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں معاشرتی اقدار اپنا کام دکھاتی ہیں۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں خود کو حاصل شدہ رعایت کا استحصال کرنا جائز اور حق سمجھا جاتا ہو، وہاں تبدیلی لانے کے لیے کسی بھی غیرقانونی اقدام کے بارے میں آواز اٹھانے والوں کو مزید کوشش کرنا ہوگی۔

حالیہ سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہی کر رہی ہیں اور اس میں کچھ حد تک سچائی بھی ہے۔ لیکن اختیارات کے ناجائز استعمال کو قابلِ اعتبار اور مضبوط چیلنج کرنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ مضبوط اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف قوانین کو مضبوط کرکے ان پر سختی سے عمل کرانا ہوگا۔ وکلا کو چاہیے کہ خود کو قانون کا محافظ سمجھیں کیونکہ اعتماد توڑنے جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے قانون ایک بہترین ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے۔

درست سماجی رویوں اور روایات کے نفاذ کا کام قوانین کی درستگی اور مضبوطی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد یہی رویے اور روایات قانون کے نفاذ میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔

پاکستان میں اب حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ شاید ہم موجودہ سماجی رویوں کو تبدیل کر کے اس سے بہتر روایات قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ لیکن یہ سوچنا مشکل ہے کہ کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے پر خاموش رہنے والی سماجی روایات کے ہوتے ہوئے گورننس کس طرح بہتر ہوسکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں