مایوسی کا دائرہ

04 دسمبر 2014
مدرسے سے برآمد ہونے والی بچیوں کا معاملہ کئی سطحوں پر ریاستی ناکامی کا اظہار ہے۔
مدرسے سے برآمد ہونے والی بچیوں کا معاملہ کئی سطحوں پر ریاستی ناکامی کا اظہار ہے۔

*تمام لاحاصل بحثوں میں سب سے پہلا نمبر اس بحث کا ہے جس نے موجودہ وزیرِ داخلہ کی توجہ اور توانائی اپنی جانب مبذول کرا رکھی ہے۔ *

ان دونوں تابناک انسانوں نے دولتِ اسلامیہ کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے مخالف پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں یعنی وزیرِ داخلہ کا اصرار ہے کہ یہ قاتل تنظیم ملکی سرزمین پر موجود نہیں۔

یقیناً آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بحث لاحاصل نہیں کیونکہ یہ تکفیری عفریت مسلم دنیا کے افق پر ابھرنے والے سب سے طاقتور، زہریلے اور جان لیوا خطروں میں سے ہے، جو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی، بلکہ اس سے آگے بھی قتل و غارت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دولت اسلامیہ کا نفرت انگیز نظریہ، ذہن گھما دینے والی بربریت، شام اور عراق میں اپنے زیرِاثر علاقوں میں خام تیل کی آمدنی تک رسائی، اور تیزی سے فوجی پیشرفت جیسے عوامل دنیا بھر کے انتہا پسند عناصر کے لیے ایک مقناطیسی کشش ثابت ہو رہے ہیں۔

القاعدہ کی طرح اسے پاکستان میں اپنی شاخ قائم کرنے کے لیے زیادہ مشکل بھی نہیں ہوگی۔ اس ملک کا ماحول پہلے ہی معتصب مذہبی عقائد کے پُرتشدد اظہار کے لیے موزوں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کے انتہاپسند یہاں پھل پھول رہے ہیں۔

گشتہ ہفتے کے چند واقعات کو دیکھیں، جن سے عندیہ ملتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کا بلوچستان میں انسداد پولیو پروگرام اور صوبائی حکومت کی معاونت کے لیے یونیسیف کا فیلڈ ورک نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں چار پولیو ورکرز کی ہلاکت کے باعث متاثر ہوا ہے۔

اگرچہ جنداللہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے، لیکن بلوچستان اس وقت ایسی ابتر صورتحال میں ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس نے پولیو ورکرز کو ہدف بنایا ہے۔ مگر جب ریاست برسوں تک طالبان سے منسلک فرقہ پرست دہشت گردوں کو اس لیے نشانہ نہ بنائے، کیونکہ خود اس پر ان عناصر کو مسلح علیحدگی پسندوں کے خلاف استعمال کرنے کا الزام ہے، تو ان حالات میں ہم اور کیا توقع کرسکتے ہیں؟

اس کے علاوہ شیخوپورہ کی ایک 26 سالہ عیسائی گھریلو ملازمہ کی خبر ہے جس کی اطلاعات کے مطابق ان خواتین سے تکرار ہوگئی تھی جن کے گھر میں وہ کام کرتی تھی۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں نے پانی کے پائپ سے اس ملازمہ پر تشدد کیا اور پھر اسے برہنہ کرکے گلی میں چھوڑ دیا۔

وہ متاثرہ خاتون تین ماہ کی حاملہ تھی اور اسے اتنی بری طرح مارا پیٹا گیا تھا کہ حمل ضائع ہوگیا۔ ملکی ماحول روزانہ پیش آنے والے اس طرح کے دہشت ناک سانحات سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے کہ اس خبر کو سن کر میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس پر توہین مذہب کا الزام نہیں لگا تھا۔ ایک خاتون پر دو مرد تشدد کرتے ہیں، اس کا حمل ضائع ہوتا ہے، وہ گلی کے بیچ برہنہ چھوڑ دی جاتی ہے، اور ہم معمولی 'رحمدلی' پر شکر ادا کرتے ہیں۔ لیکن یہ قابلِ شرم ریلیف بھی زیادہ دیر کا نہ تھا۔

عیسائی برادری کے رہنماﺅں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم رضاکاروں کی جانب سے اس واقعے کے خلاف احتجاج اور پولیس سے ایکشن لینے کے مطالبے کے بعد عیسائی برادری کے لیے خطرہ اپنے بدصورت چہرے کے ساتھ ابھر کر اس وقت سامنے آیا جب رپورٹس کے مطابق مظاہرین کو اس معاملے سے لاتعلق ہونے یا توہینِ مذہب کے الزامات کے سامنے کا انتباہ دیا گیا۔

پنجاب حکومت کا عیسائی اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے کا ریکارڈ ایسا ہے کہ متاثرہ خاتون کو انصاف کی فراہمی کی توقع حقیقت کے مقابلے میں کسی خواہش کی طرح لگتی ہے۔

کیا اس ہفتے کی ایک اور خبر پر بھی بات کریں، جس نے دو لڑکیوں کے باپ ہونے کی حیثیت سے مجھے ہلا کر رکھ دیا؟ عوامی سطح پر متعدد حقائق سامنے نہیں آتے مگر جو سامنے آتے ہیں، وہی پریشان کرنے کے لیے کافی ہیں۔

خود سے صرف یہ سوال کریں کہ آخر وہ کیا حالات ہوں گے جن سے مجبور ہو کر تین درجن کم عمر بچیوں کے والدین کو اپنی بیٹیوں کو باجوڑ سے اتنی دور کراچی تعلیم، کپڑوں اور خوراک کے لیے ایک مدرسے میں بھیجنا پڑا۔ خراب سیکیورٹی صورتحال سے لے کر آبادی کی بڑی تعداد کو غربت میں پسنے کے لیے چھوڑ دینے تک، کیا یہ مختلف سطحوں پر ریاستی ناکامیوں کا اظہار نہیں ہے؟

یہ بچیاں اور ان کی حالت و زار کا عوام کے سامنے آنا حادثاتی تھا۔ اس مدرسے کی بے حس انتظامیہ نے ان بچیوں کو کسی فرد کے ساتھ مبینہ مالیاتی تنازع میں استعمال کیا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آخر کتنے ایسے ننھے فرشتے اس طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں جو منظرعام پر نہیں آپاتے۔

اور پھر اسلام آباد میں شیعہ عالم علامہ نواز عرفانی کے قتل کا معاملہ ہے۔ ان کے حامی اور کچھ آزاد مبصرین بھی پاراچنار میں چودہ سال سے بطور امام سرگرم علامہ نواز عرفانی کو کرم ایجنسی میں طالبان کے خلاف ایک کامیاب مزاحمت منظم کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔

مگر حکومت نے انہیں بظاہر فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاراچنار سے بے دخل کردیا۔ معاملہ کچھ بھی ہو، انہیں غیرمحفوظ چھوڑ دیا گیا اور پھر دارالحکومت میں مسلم لیگ ن کی اتحادی اور اسٹیبلشمنٹ کی وفادار فرقہ وارانہ جماعت کی خوشی کے لیے دن دیہاڑے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔

اگر ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ پر بھی اتنا ہی وقت صرف کرے جتنا اس کے مطابق پاکستان دشمن عناصر کے شکار پر لگاتی ہے، تو پاکستان زیادہ محفوظ اور بہتر مقام بن سکتا ہے۔ آخر آپ جنگ جیو کے مالک میر شکیل الرحمان (اور دیگر تین) کو ایک عدالت کی جانب سے مذہبی جذبات متاثر کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے سنائی جانے والی 26 سال قید کی سزا کی وضاحت اور کیسے کرسکتے ہیں؟

یہ ان کے گروپ کی ادارتی پالیسی کا دفاع نہیں۔ حامد میر کے بھائی نے ان پر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار آئی ایس آئی چیف کو ٹھہرایا، جس کی رپورٹنگ کا طریقہ کار غلط ہوسکتا ہے۔ پیمرا نے اس کوریج پر میڈیا گروپ کو جرمانے اور نشریات معطل کرنے کی سزا سنائی جس کے بعد یہ معاملہ حل ہوجانا چاہیے تھا مگر نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اس میڈیا گروپ کو زیادہ بڑا سبق سکھانے کی ضرورت تھی۔

یہ سب باتیں اس بات سے انحراف نہیں کہ آئی ایس پر بحث بے مقصد اور غیر ضروری ہے یا نہیں۔ نہیں درحقیقت یہ اس بات کو نمایاں کرنے کی کوشش ہے کہ ہم اپنی تکلیفوں سے واقف ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے۔ چلیں یقین کرلیتے ہیں کہ آئی ایس کا خطرہ واقعی حقیقی ہے، مگر پھر کیا؟ ہم اس سے بھی ویسے ہی نمٹ لیں گے جس طرح اپنے وجود کو لاحق دیگر خطرات سے نمٹ رہے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں