نامعلوم، غیرمطلوب ننھے فرشتے

عاتکہ رحمان


روشینوں کے شہر کے تاریکی میں ڈوبےتنگ راستوں پر یہ خونی واقعات لگ بھگ روزانہ پیش آتے ہیں اور ایک معمول کی حقیقت بنتے جارہے ہیں یعنی ننھے منے فرشتوں کو ٹوٹی ہوئی بوتلوں، گھریلو فضلے اور دیگر انبار سے بھرے کچرا دانوں میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں ان کی کومل جلد کو سب سے پہلے چھونے والا کوئی جنگلی جانور ہوتا ہے، ایک بھوکی بلی یا پاگل کتا جو کچرے کے ڈھیر میں کچھ کھانے کی تلاش میں پہنچتے ہیں۔

وہاں کوئی فکر مند ماں مصبیت زدہ بچے کی چیخوں کا جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہوتی کہ کیا اسے سردی لگ رہی ہے؟ کیا وہ گیلا ہے ؟ بھوک ؟ کیا اسے کوئی تکلیف ہے؟ مگر بہت جلد ہی کچرے کے اس ڈھیر میں آگ لگا دی جاتی ہے اور وہ ایک بغیر نشان کی دھواں دار قبر کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔

مگر کسی فرد سے یا حکومتی ادارے سے بات کی جائے کہ آخر کتنے بچے ان اندھیرے راستوں پر پھینکے جاتے ہیں تو جواب ہمیشہ یکساں ہی ہوتا ہے۔

سماجی رضاکار رمضان چھیپا اس حوالے سے بتاتے ہیں ' ہم اس بات میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے یہ تعداد سینکڑوں میں بھی ہوسکتی ہے اور ہزاروں میں بھی"۔

رمضان چھیپا ایسے چھوڑ دیئے جانے والے بچوں اور بے گھر افراد کو اپنے مراکز میں پناہ فراہم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے ایک عہدیدار نے اس سوال پر بتایا " ایدھی سے پوچھیں ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس اعدادوشمار ہو"۔

کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ایک عہدیدار نے بھی یہی جواب دیا " ایدھی سے معلوم کریں لوگ عام طور پر ان کو فون کرتے ہیں ہمیں نہیں"۔

ملک بھر میں معروف عبدالستار ایدھی کے مختلف مراکز میں ایسے ہزاروں بچے پل بڑھ رہے ہیں اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی تسلیم کرتی ہیں " ہم نہیں جانتے کہ کتنے بچوں کو اس طرح پھینکا جاتا ہے"۔

بڑی تعداد میں یہ بے نام بچے اس سفاکانہ انداز سے مارے جاتے ہیں، ہمیں یہ بتایا تو گیا مگر کوئی بھی نہیں جانتا کہ حقیقی تعداد کیا ہے۔

نیوز رپورٹس کے مطابق شہر بھر میں کچرے دانوں میں بچوں کو چھوڑے جانے کی تعداد ہر سال سینکڑوں میں ہوتی ہے مگر اس حوالے سے کوئی باضابطہ ریکارڈ مرتب نہیں کیا گیا۔ یونیسیف کے پاس بھی ملک میں اس طرح کے واقعات کے مستند اعدادوشمار نہیں جبکہ ایدھی سینٹر اور چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے پاس کچرا گھروں سے ملنے والے بچوں یا والدین کی جانب سے کسی جوڑے کو گود دے دینے والے بچوں کی حقیقی تعداد کا ریکارڈ رکھنا یا اسے ریگولیٹ کرنے کا میکنزم موجود نہیں، تاہم یہ دونوں تخمینہ ضرور فراہم کرتے ہیں۔

بلقیس ایدھی بتاتی ہیں " اکثر غیر مطلوب بچوں کو کچرے میں اس حالت میں پھینک دیا جاتا ہے کہ ان کی آنول تاحال ناف سے منسلک ہوتی ہے، کئی بار مڈ وائف یا دائی کو کوئی جوڑا اپنا بچہ کچرے دان میں پھینکنے کے لیے بڑی رقم کا لالچ دیتا ہے"۔

رمضان چھیپا کے مطابق ایسے " پندرہ سے بیس واقعات ماہانہ سامنے آتے ہیں، ہمیں بہت کم ہی بچے کچرا دانوں سے زندہ مل پاتے ہیں، اگر شرح کے حساب سے بات کی جائے تو سال بھر میں چار بچے ہی زندہ ملتے ہیں"۔

بلقیس ایدھی کے مطابق قبل از وقت پیدا ہونے والے یہ ننھے فرشتے کچرے میں پھینکے جانے کے کچھ دیر بعد ہی انتقال کرجاتے ہیں " انہیں رات کے وقت وقت پھینکا جاتا ہے اور پلاسٹک بیگز یا کاغذ میں لپٹے ہوئے ان بچوں کو اگلی صبح کچرا چننے والے افراد دریافت کرتے ہیں جو لگ بھگ مر ہی چکے ہوتے ہیں"۔

ایک ایسے ملک جہاں لگ بھگ بیس کروڑ افراد (اس بارے میں کوئی یقین نہیں کہہ سکتا) رہتے ہو، ریاست کی جانب سے سوشل سیکیورٹی سیکیورٹی کی ذمہ داری پر توجہ نہ جاتی ہو تو فلاحی ادارے جیسے ایدھی اور چھیپا اس خلاءکو پر کرنے کے لیے آگے آتے ہیں، یہ مخیر افراد بلاتکان لگ بھگ کسی مشین کی طرح کام کرتے ہیں، لوگوں کو پناہ فراہم کرتے ہیں، ریسکیو سروسز اور خطرات سے دوچار افراد تک خوراک پہنچاتے ہیں۔

ایدھی اور چھیپا جیسے ادارے اکثر محدود وسائل اور رسائی کے پابند ہوتے ہیں اور وہ لوگوں تک رسائی اور والدین کی جانب سے الگ کردیئے جانے والے بچوں کے اعدادوشمار کو مرتب کرنے وغیرہ میں ریاست کا مقابلہ نہیں کرسکتے، کوئی بھی ان اعدادوشمار کو مرتب کرنے کی زحمت نہیں کرتا کیونکہ یہ ان کا کام نہیں ہوتا۔

دوسری جانب جس کو ان اعدادوشمار کی فکر ہونی چاہئے یعنی حکومت وہ تو اس تصویر یا منظرنامے سے ہی غائب ہے۔

ان مردہ بچوں کے حوالے سے دستاویزات موجود نہ ہونا ہی واحد مسئلہ نہیں بلکہ بچپن میں اپنے گھروں سے بھاگ جانے والے بچوں کے اعدادوشمار کے حوالے سے بھی صورتحال کافی غیرواضح ہے لاہور سے تعلق رکھنے والی صحافی مریم پرویز اس بارے میں بتاتی ہیں " کئی بار لوگ کہتے ہیں کہ پندرہ لاکھ بچے گھروں سے بھاگ چکے ہیں، جبکہ کئی بار یہ تخمینہ ایک کروڑ تک جا پہنچتا ہے، درحقیقت اس حوالے سے کوئی بھی مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں"۔

دہائیوں سے اپنا وقت ان بے گھر بچوں کو پناہ فراہم کرنے والی بلقیس ایدھی اس وقت چکرا گئی جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر جوڑے اس طرح اپنے گوشت اور خون کے حصے کو جنگلی جانوروں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں " صرف اللہ ہی ان کے حالات کے بارے میں جانتا ہے، ہمارے ایدھی مراکز میں ایک پنگھوڑے رکھے ہوتے ہیں جس میں یہ واضح پیغام ہوتا ہے ' اپنے بچے کچرے میں مت پھینکیں، بلکہ وہ ہمیں دیں اور انہیں اس پالنے میں چھوڑ دیں' کیونکہ انتہائی بیمار بچوں کو بھی پنگھوڑے میں چھوڑ دیا جائے تو بھی اس کے بچ جانے کے امکانات ہوتے ہیں، مگر جب انہیں کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے تو پھر زیادہ امکان ان کی موت کا ہی ہوتا ہے"۔

آغا خان یونیورسٹی کے نفسیاتی شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر مراد موسیٰ خان کا کہنا ہے کہ اس طرح بچوں کو چھوڑنے کے حوالے سے کوئی تحقیق موجود نہیں مگر یہ افواہیں ضرور موجود ہیں کہ یہ بچے شادی سے قبل کے تلعقات کا نتیجہ ہوتے ہیں، لڑکے کی پیدائش کا دباﺅ یا انہیں مالی وجوہات کی بناءپر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا " درحقیقت ایسا کرنا کسی بھی ماں کے لیے بہت مشکل کام ہے، مگر کچھ معاملات میں خواتین نفسیاتی امراض کا شکار ہوتی ہیں اور ان کا بچے کے ساتھ تعلق یا رحم کا رشتہ پیدا نہیں ہوپاتا"۔

رمضان چھیپا کا ان واقعات کے حوالے سے بیان دل خراش تھا "عقاب، کوے، کتے اور بلیاں وغیرہ ان بچوں کے نازک جسموں کے ٹکڑے کردیتے ہیں، ایسے بچے آنکھوں، کانوں یا ناک کے بغیر پائے گئے ہیں، یہاں تک کہ اگر وہ بچ بھی جائے تو انہیں کون گود لے گا؟ جو لوگ بچے گود لینا چاہتے ہیں وہ بھی صحت مند بچوں کے خواہشمند ہوتے ہیں"۔

چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ساتھ گزشتہ 26 سال سے کام کرنے والے ایک ایمبولینس ڈرائیور نے بتایا کہ کس طرح چند خواتین نے اسے بتایا کہ انہیں ایک بچہ گٹر میں ملا ہے " اسے کپڑے میں لپیٹ کر پھینک دیا گیا تھا، میں چھلانگ لگا کر اسے اوپر لایا، تھیلے میں سے نکالا اور تولیے سے صاف کیا، وہ ایک لڑکا تھا اور رو رہا تھا، اس کے بازو کھولے ہوئے تھے ، اگر مجھے کچھ سیکنڈ کی بھی تاخیر ہوجاتی تو یہ بچہ مرجاتا، وہ ایک خوبصورت بچہ تھا اسے پھینکنے والے لوگ کون ہیں ؟ میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور ہمیں یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی تھی میرا پورا جسم کانپنے لگا تھا"۔

اس نے بتایا کہ کچرا دانوں سے ملنے والے بیشتر بچے عام طور پر لڑکیاں ہوتی ہیں۔

لڑکے کی خواہش

رمضان چھیپا بتاتے ہیں کہ ایسے بچوں کے واقعات میں بہت کم تعداد ہی شادی سے قبل تعلقات کا نتیجہ ہوتی ہے " لگ بھگ 98 فیصد ایسے واقعات غربت یا لڑکے کی خواہش کے باعث پیش آتے ہیں، بیشتر والدین لڑکے کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر ان کے ہاں بچیوں کی پیدائش ہورہی ہوتی ہے اور ہر بار بچی کی پیدائش پر وہ اس سے نجات پانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں"۔

ایدھی سینٹر میں گزشتہ 35 سال سے مڈ وائفز کو تربیت دینے والی زہرہ باجی کا کہنا تھا کہ کچرا دانوں سے ملنے والے ان بچوں میں اکثریت بچیوں کی ہوتی ہے " یہ ہمارا معاشرہ ہے، خود مجھے میرے شوہر نے اس لیے طلاق دے دی تھی کہ میں پانچ بیٹیوں کے بعد بھی ایک بیٹے کو جنم نہیں دے سکی، میری ماں کے ہاں بھی پانچ بچیوں کی پیدائش ہوئی تھی"۔

یہ سادہ بزرگ خاتون کسی بچی کی پیدائش کر خاندان کے افراد کے جذبات کے بارے میں بتاتی ہیں " جب ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے تو خاندان کے افراد خاموشی سے چلے جاتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ماں کی حالت کیسی ہے کیا وہ کھا بھی رہی ہے؟ وہ اس کی پروا نہیں کرتے بس یہ کہتے ہیں چلو اور نکل جاتے ہیں"۔

تاہم اگر لڑکا پیدا ہو تو جشن کا سماں ہوتا ہے " شوہر حلوہ پوری لے کر آتے ہے اور بیوی کے پاﺅں دباتا ہے، میں انہیں بتاتی ہوں کہ بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ بیٹوں کی پیدائش پرکچھ لوگ بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں چاہے وہ لڑکا ان کا دسواں بیٹا ہی کیوں نہ ہو"۔

ڈاکٹر مراد خان بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ نچلے طبقے کے گھرانوں تک محدود نہیں " میرے پاس متعدد ایسے مریض آتے ہیں جو اپنی بچیوں کو اپنے قریبی رشتے داروں جیسے بانجھ بہن یا کسی اور رشتے دار کو دینا چاہتے ہیں، اس طرح کے متعدد کیسز سامنے آتے ہیں اور بچے کو بانجھ عورت کے حوالے کردیا جاتا ہے"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بیشتر افراد کا خیال ہوتا ہے کہ لڑکے ان کے خاندان کا نام آگے بڑھاتے ہیں " ان کا خیال ہوتا ہے کہ لڑے اپنے خاندان کا نام آگے بڑھاتے ہیں، والدین کا خیال رکھتے ہیں اور کماتے ہیں، وہ مضبوط ہوتے ہیں، اس طرح یہ خیال کیا جاتاہ ے کہ وہ زندگی میں زیادہ کامیابی حاصل کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں، خاندان کی ایک ایسی ہستی جسے تعلیم اور پرورش فراہم کی جاتی ہے اور پھر ایک دن وہ چلی جاتی ہے، وہ اسے اپنے خاندان کے حصے کے طور پر نہیں دیکھتے، یہ خواہش انہیں لڑکے کی خواہش کی جانب لے جاتی ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ تصور اب تک زندہ ہے"۔

مگر بچوں کو حاصل زندگی کے حق کے حوالے سے بڑے پیمانے پر ریاستی قیادت میں شعور اجاگر کرنے کی مہم یا عوام سے کچرا دانوں میں ملنے والے بچوں کے تاریک حقائق دکھا کر جذباتی اپیل کے بغیر اس طرح کے واقعات میں کمی آنے کا امکان بہت کم ہے۔