موسیقار جی اے چشتی کی 20 ویں برسی

25 دسمبر 2014
بابا غلام احمد چشتی — اسکرین شاٹ
بابا غلام احمد چشتی — اسکرین شاٹ

اے جذبہ دل گر میں چاہوں جیسے ہزاروں اردو پنجابی نغموں کے خالق معروف موسیقار غلام احمد چشتی المعروف بابا چشتی 17 اگست 1905 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔

بچپن سے بابا چشتی موسیقی کے شیدائی تھے اور اسکول میں نعت خوانی کیلئے شہرت رکھتے تھے۔

کچھ عرصے بعد وہ لاہور میں آئے تو برصغیر میں اسٹیج ڈراموں کی ترویج کرنیوالے آغا حشر کاشمیری نے بابا چشتی کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے انہیں اپنی کمپنی میں ملازمت دیدی، جہاں انہیں موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔

بابا چشتی نے ہی لاہور میں میڈم نورجہاں کو 1935 میں ایک اسٹیج ڈرامے میں متعارف کروایا تھا، انھوں نے 1936 میں دین و دنیا کے نام سے بنائی جانیوالی فلم کی موسیقی دے کر اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔

قیام پاکستان سے قبل انھوں نے کئی فلموں کی موسیقی دی، پھر 1949 میں پاکستان آگئے۔

یہاں انھوں نے ایک ساتھ تین فلموں سچائی، مندری، اور پھیرے کو اپنی موسیقی سے سجایا، جس میں سے پھیرے سپرہٹ ثابت ہوئی اور بابا چشتی بھی پاکستانی فلمی صنعت کی ضرورت بن گئے۔

انھوں نے معروف گلوکار مسعود رانا کو اپنی فلم 'رشتہ' میں متعارف کرایا تاہم فلم 'ڈاچی' کے گیت تانگے والا خیر منگدا نے مسعود رانا کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔

اسی طرح گلوکارہ مالا بھی جی اے چشتی کی ہی دریافت ہیں جنھیں نور جہاں کے بعد دوسری بہترین آواز ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔

جی اے چشتی کے لئے مالا نے متعدد ہٹ گیت گائے مگر 'چن میرے مکھناں' آج بھی روز اوّل کی طرح مقبول ہے۔

زبیدہ خانم جیسی مدھر آواز بھی جی اے چشتی کی مہربانی سے پاکستانی فلمی صنعت کو ملی، اس جوڑی نے متعدد ہٹ گیت لولی وڈ کو دیئے، جن میں 'میری چنی دیاں ریشمی تنداں' جیسا نغمہ بھی شامل ہیں۔

انھوں نے 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں سے زیادہ تر پنجابی تھی۔

جن میں مورنی، جٹی، سلطنت، میرا ماہی، معجزہ، جگ بیتی، نوکر، گمراہ اور عجب خان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

25 دسمبر 1994 کو لاہور میں حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث ان کا انتقال ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں