کراچی: کراچی یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی طور پر حراساں کرنے کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار جنسی طور پر حراساں کیے جانے کا معاملہ سوشل ورک ڈپارٹمنٹ میں سامنے آیا ہے۔

طلباء کی جانب سے متعدد شکایات کے بعد باقاعدہ طور پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی 10 روز میں اس معاملے کی تفتیش کرکے رپورٹ وائس چانسلر کو جمع کروائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شعبہ ابلاغ عامہ میں ضمنی مضمون کی کلاسیں لینے والے شعبہ اردو کے ایک استاد کے خلاف بھی طالبہ نے ’’نامناسب رویئے‘‘ کی تحریری شکایت جمع کروائی ہے۔

شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر مسعود نے شکایت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 'ہمیں ایک شکایت موصول ہوئی تھی جو کہ شعبہ اردو کو ارسال کر دی گئی ہے'۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کے مطابق اساتذہ کے ’’نامناسب رویے‘‘ کے حوالے سے شکایت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اب اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے تجویز دی کی کہ فوری طور پر اس مسئلے کو یونیورسٹی کیمپس میں اٹھایا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا سیل بنایا جائے جس میں ایسے اساتذہ شامل ہوں جن پر کسی بھی قسم کا کوئی الزام نہ ہو اور ان کی کوئی سیاسی وابستگی بھی نہ ہو جس سے شفاف تحقیقات اور درست فیصلے ہو سکیں گے۔

طالبات نے بھی حراساں کیے جانے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک خود مختار سیل کے قیام کی تجویز کی حمایت کی ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ کئی کیس ایسے بھی ہیں جو کہ رپورٹ نہیں ہوتے۔

گزشتہ برس اردو ڈپارٹمنٹ میں جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے ایک معاملے پر ایک طالبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تحقیقاتی عمل پر شدید اعتراض کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’جنسی طور حراساں کرنے کے کیس میں معطل کیے جانے والے استاد کو دو سال بعد بحال کیا گیا اب طلبہ یہ سوال کر رہے ہیں اگر وہ قصور وار نہ تھے تو دو سال تک ان کو معطل کیوں رکھا گیا اور اگر وہ قصور وار تھے تو ان کو بحال کیوں کیا گیا؟

ذرائع کے مطابق اردو ڈپارٹمنٹ کے اسی کیس میں کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دو بار تحقیقات کیں، پہلے تحقیقات میں ان استاد کو سزا دینے کی تجویز دی گئی جبکہ بعض نامعلوم وجوہات پر دوسری بار تحقیقات کرکے ان کو بے قصور قرار دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ نومبر 2014 میں یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ میں پیش کی گئی جس کے بعد استاد کو بحال کر دیا گیا۔

ان استاد کے بحال ہونے پر ڈپارٹمنٹ کے دیگر اساتذہ نے تجویز دی تھی کیوں کہ ان کی بینائی درست نہیں ہے تو ان پر ٹیچنگ کی پابندی ہو اور وہ پیپرز چیک کر سکیں مگر انتظامیہ نے اس تجویز پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔

دو سالہ تحقیقات کے دوران مذکورہ استاد کو باقاعدہ تنخواہ ملتی رہی جبکہ یہ عرصہ ان کی چھٹیوں میں شمار کیا گیا۔

اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار معظم علی خان نے کیمپس میں حراساں کیے جانے کے کیسز میں اضافے کی تردید کی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ایک استاد کے خلاف طالبہ کو حراساں کرنے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کمیٹی جنسی حراساں کیے جانے کی تحقیقات کر رہی ہے، اب اس کی تحقیقات کتنے عرصے میں مکمل ہو گی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اردو ڈپارٹمنٹ کے استاد کی بحالی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کا معاملہ سینڈیکیٹ میں منظور ہوا تھا کیونکہ تحقیقاتی کمیٹی نے ان کو بے قصور قرار دیا تھا۔

جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے معاملے پر سیل بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کے مشیر کی پروفیسر شمس الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم تھی لیکن اب بھی یہ قائم ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

anony Jan 10, 2015 01:36am
the institution needs to be free from political influence and its the main reason for the downfall of KU