‫پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

‫پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

سعدیہ امین اور فیصل ظفر


کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ پاکستان کو کتنا جانتے اور کتنا سمجھتے ہیں؟ گرد و پیش دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی۔ یعنی اچھے حوالے کم ہی ہوں گے اور جب آپ اتنے خراب حوالوں کے باوجود پاکستان سے اتنی محبت کر سکتے ہیں تو اچھے حوالے محبت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں گے، جس کی کوئی حد نہیں۔

کیونکہ یہاں دنیا کی سب سے خوبصورت وادی کاغان بھی ہے، نامعلوم گہرائی والی پریوں کی جھیل سیف الملوک بھی، سربہ فلک برف پوش چوٹیاں بھی، پرہیبت صحرا بھی یہاں موجود ہیں اور سرسبز وادیاں بھی، یہ سب کچھ دیکھا ہے آپ نے ؟ اگر نہیں تو ہم نے کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے ایک سیریز میں پاکستان کا وہ خوبصورت چہرہ سامنے لائیں جو میڈیا میں منفی رپورٹنگ کے باعث کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔

سیف الملوک جھیل

ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے، جس کا نام یہاں مشہور ایک افسانوی داستان، قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے۔ جھیل سیف الملوک وادیٔ کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے، یہ سطح سمندر سے تقریبا 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔

ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں خاص طور پر جب ناران سے جھیل سیف الملوک تک چودہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس پر پہلی نظر پڑتی ہے تو ایک جادو سا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جنت زمین پر اتار دی ہے۔

لولوسر جھیل

لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے، ناران چلاس روڈ پر 3353 میٹر بلندی پر واقع لولوسر جھیل ناران کے قصبے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر وادیٔ کاغان اور کوہستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل پر ہر سال روس سے آنے والے پرندے اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔

لولوسر دراصل اونچی پہاڑیوں اور جھیل کے مجموعے کا نام ہے، ناران آنے والے سیاح لولوسر جھیل دیکھنے ضرور آتے ہیں اور غضب ناک دریائے کنہار میں پانی کا بڑا ذریعہ لولوسر جھیل ہی ہے۔ جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عکس جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔

آنسو جھیل

آنسو جھیل وادیٔ کاغان میں واقع ایک جھیل ہے، جو ضلع مانسہرہ، خیبر پختونخوا میں ملکہ پربت کے پاس واقع ہے۔ لگ بھگ سولہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اس جھیل کو پانی کے قطرے جیسی شکل کی وجہ سے آنسو جھیل کا نام دیا گیا اور یہ دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔

یہ جھیل درمیان سے برف سے جمی رہتی ہے جس سے یہ کسی آنکھ کی پتلی سے نکلنے والے آنسو جیسی لگتی ہے تاہم یہاں جانے کے خواہش مند افراد کے لیے اس تک رسائی زیادہ آسان نہیں کیونکہ ایک تو یہاں آنے کا بہترین موسم مئی سے اکتوبر ہے اور پھر وہاں رہائش کے لیے کوئی ہوٹل وغیرہ موجود نہیں اور کیمپنگ کرنا پڑتی ہے مگر درجۂ حرارت میں اچانک کمی خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

دودی پتسر جھیل

دودی پتسر جھیل وادیٔ کاغان کے انتہائی شمال میں 4175 میٹر بلند پر واقع ہے اور یہاں ناران کے علاقے جل کھاڈ (Jalkhad) سے چار گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا جاسکتا ہے، مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں۔ لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے، درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کا نام بھی رکھا گیا۔

یہ علاقہ اپنے جادوئی منظر سیاحوں کو اپنے خیمے یہاں لگا کر قدرتی خوبصورتی اور تنہائی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، جھیل دودی پتسر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گذار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے، جھیل کے اطراف میں چرا گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ستپارہ جھیل

سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے۔

ستپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سات دروازے اس کی وجہ یہ ایک دیومالائی کہانی ہے، جو یہ ہے کہ جس جگہ یہ جھیل ہے وہاں صدیوں پہلے ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن اس گاؤں میں کوئی بزرگ فقیر کے بھیس میں لوگوں کو آزمانے کے لیے آئے۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانے پینے کی چیزیں مانگی، سوائے ایک بڑھیا کے کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ اس بزرگ نے بستی والوں سے ناراض ہو کر انہیں بد دعا دی لیکن ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی کہ نیک بڑھیا جس نے ان کی مدد کی تھی، اسے کچھ نقصان نہ پہنچے۔ دعا قبول ہوئی اور راتوں رات گاؤں الٹ گیا اور اس کی جگہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جس جگہ نیک دل بڑھیا کا گھر تھا وہاں پانی اس سے دور رہا، یوں یہ جزیرہ آج بھی سلامت ہے۔

رش جھیل

رش جھیل پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے اور یہ 5098 میٹر کی بلندی پر رش پری نامی چوٹی کے نزدیک واقع ہے۔ یہ دنیا کی پچیسویں بلند ترین چوٹی پر واقع جھیل ہے، یہاں تک رسائی کے لئے نگر اور ہوپر گلیشیئر کے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور اس راستے نہایت ہی دلفریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کرمبر جھیل

کرمبر جھیل خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان کے درمیان میں واقع ہے اور یہ پاکستان کی دوسری جبکہ دنیا کی 31 ویں بلند ترین جھیل ہے- 14121 فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل حیاتیاتی طور پر ایک فعال جھیل ہے، اس جھیل کی گہرائی تقریباً 55 میٹر٬ لمبائی تقریباً 4 کلو میٹر اور چوڑائی 2 کلو میٹر ہے-

بروغل کی وادی میں واقع یہ خوبصورت جھیل چترال شہر سے ڈھائی سو کلو میٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے، بروغل کی وادی اپنے خوبصورت قدرتی مناظر، برف پوش چوٹیوں، شاندار کرمبر جھیل اور پچیس سے زیادہ چھوٹی جھیلوں کے ساتھ تین اہم گزرگاہوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ گزرگاہیں اس وادی کو مغرب میں کانخن پاس کے ذریعے واخان کوریڈور سے ملاتی ہیں۔

ہالیجی جھیل

ہالیجی جھیل کراچی سے 80 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ لگ بھگ بائیس ہزار ایکڑ پر مشتمل جھیل کا قطر اٹھارہ کلو میٹر ہے۔ ہالیجی جھیل پر کبھی موسمِ سرما میں لاکھوں پرندے ہجرت کرکے عارضی بسیرا کرتے تھے۔

یہاں پرندوں کے سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں مگر اب یہاں بدیسی موسمی پرندے 'خال خال' ہی نظر آتے ہیں۔ صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل ایک طرف رفتہ رفتہ خشک ہو رہی ہے تو دوسری جانب خود رو جھاڑیاں تیزی سے اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔

اپر کچورا جھیل

اپر کچورا جھیل صاف پانی کی جھیل ہے جس کی گہرائی تقریباً 70 میٹر ہے، دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے گہرائی میں بہتا ہے، گرمیوں میں دن کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا ہے جس کی وجہ سے جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ اسی طرح لوئر کچورا یا شنگریلا جھیل کو پاکستان کی دوسری خوبصورت ترین جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظارہ کسی پر بھی سحر طاری کرسکتا ہے۔

لوئر کچورا جھیل

لوئر کچورا جھیل یا شنگریلا جھیل اصل میں شنگریلا ریسٹ ہاؤس کا حصّہ ہے، یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے- شنگریلا ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے، شنگریلا ریسٹ ہاؤس چینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے کے لیے آتی ہے۔

شندور جھیل

پولو گراؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔ اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی ایک میل ہے۔ اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل کے پانی کا ظاہری اخراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سولاسپور اور لنگر میں جانکلتا ہے۔

ہنہ جھیل

کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894 میں تاج برطانیہ کے دور میں لوگوں کو سستی فراہمی زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔1894 سے1997 تک جھیل میں پانی کی سطح برقرار رہی، تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے 2000 سے 2004 تک جھیل مکمل خشک رہی۔

سالانہ لاکھوں روپے ٹکٹوں کی مد میں وصول کرنے کے باوجود جھیل کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہنہ جھیل میں اب پانی کی سطح بتدریج گرنا شروع ہوگئی ہے اس وقت پانی کی سطح کم ہو کر آٹھ فٹ رہ گئی ہے۔ پانی کی گرتی ہوئی سطح سے جہاں سائبیریا کے پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت و تفریح متاثر ہوئے ہیں وہیں آس پاس کے باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

رتی گلی جھیل

سطح سمندر سے 12000 فٹ بلندی پر واقع رتی گلی جھیل وادیٔ نیلم کے ماتھے کا جھومر ہے، مظفر آباد سے 115 کلو میٹر دور وادیٔ نیلم کے سرسبز اور بلند و بالا پہاڑوں کے دل میں واقع رتی گلی جھیل قدرت کا حسین اور انمول تحفہ ہے۔ اس جھیل کے اردگرد وسیع و عریض سرسبز میدان انتہائی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

جھیل کے چہاروں اطراف کھلے میدانوں میں علاقے کے چرواہے ہزاروں مویشیوں کو پالتے ہیں۔ رتی گلی جھیل کے نیلگوں پانی اور کناروں پر جمی برف یہاں آنے والوں پر سحر طاری کرتی ہے۔

بنجوسہ جھیل

بنجوسہ ایک مصنوعی جھیل اور مشہور سیاحتی مقام ہے، یہ راولاکوٹ سے بیس کلو میٹر دور ریاست آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں واقع ہے۔ بنجوسہ جھیل راولاکوٹ سے بذریعہ سڑک منسلک ہے۔ جھیل کے ارد گرد گھنا جنگل اور پہاڑ اس جھیل کو بے حد خوبصورت اور دلکش بناتے ہیں۔ یہاں گرمیوں میں بھی موسم خوشگوار رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی ہوتی ہے اور درجۂ حرارت منفی 5 سینٹی گریٹ تک گر جاتا ہے، دسمبر اور جنوری میں یہاں برف باری بھی ہوتی ہے۔

کنڈول جھیل

کم معروف ہونے کی وجہ سے سوات کا سفر کرنے والے اکثر سیاح کالام کے خوبصورت علاقے سے کچھ فاصلے پر واقع اس جھیل کے نام اور محل وقوع سے بھی واقف نہیں۔ کنڈول جھیل کی وسعت، پانی میں جھلکتے نیلے آسمان اور گرد و پیش کے پہاڑو ں کا عکس، راستے کی دقتوں اور تھکاوٹوں کو پل بھر میں دور کر دیتا ہے۔ اردگرد کی برف پوش چوٹیوں، سر سبز ڈھلوانوں اور درختوں کے درمیان کنڈول جھیل ایک گول پیالے کی صورت میں دلفریب نظارہ پیش کرتی ہے۔

کلر کہار جھیل

کلر کہار پنجاب کے ضلع چکوال کا ایک تفریحی مقام ہے، یہ تفریحی مقام چکوال کے جنوب مغرب میں 25 کلو میٹر کے فاصلے پر موٹروے ایم - ٹو کے ساتھ واقع ہے۔ کھارے پانی کی یہ جھیل سیاحوں میں کافی مقبول ہے، اس جھیل کے کنارے پر ایک امیوزمنٹ پارک موجود ہے جو اس کی خوبصورتی کو بڑھا دیتا ہے، جبکہ سیاحوں کے آرام کے لیے ایک موٹیل اور ریسٹورنٹ بھی یہاں کام کررہے ہیں۔یہاں بڑی تعداد میں مور بھی پائے جاتے ہیں۔ چاندنی رات میں جھیل کنارے مور کا رقص دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

بوریتھ جھیل

وادی ہنزہ کے اوپری حصے میں گوجال کے قریب ایک گاﺅں حسینی میں واقع اس جھیل کو خوبصورت ترین کہا جاسکتا ہے مگر اس کے اوپر موجود لوگوں کے گزرنے کے لیے حسینی نامی پل اتنا ہی خطرناک ہے، شہر گلگت سے ایک راستہ گلیشیئر عبور کر کے جھیل بوریتھ پہنچتا ہے۔ یہ سفر پیدل تین تا چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے تاہم گلیشیئر میں خطرناک دراڑیں ہیں اس لیے مقامی گائیڈز کی مدد کے بغیر اس پر سے گزرنا خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ بوریتھ جھیل دراصل ان برفانی گلیشیٔرز کے پانی سے ہی وجود میں آئی ہے اور یہ وسط ایشیاء سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں اور فطرت سے محبت کرنے والے افراد کے لیے ایک زبردست جگہ ہے۔

غوراشی جھیل

غوراشی جھیل بلتستان کی وادی کھرمنگ میں واقع ہے اور یہ جنگلی خوبانی کے باغات اور پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی گہرائی اسی میٹر تک ہے تاہم پہاڑی علاقے میں ہونے کی وجہ سے یہاں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں لوگ ٹراﺅٹ مچھلی کے شکار کے لیے آتے ہیں۔

شیوسر جھیل

شیوسر جھیل گلگت بلتستان کے دیوسائی قومی پارک میں واقع ہے، یہ جھیل سطح مرتفع تبت کے سر سبز میدان میں 4142 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 203 کلو میٹر، چوڑائی 1.8 کلو میٹر اور اوسطاً گہرائی 40 میٹر ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے، گہرے نیلے پانی، برف پوش پہاڑیوں، سرسبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ یہ منفرد جھیل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ شیوسر جھیل کے گرد چکر لگانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں جس سے اس کے طول و عرض کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

منچھر جھیل

یہ پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے جو دریائے سندھ کے مغرب میں ضلع دادو میں واقع ہے۔اس جھیل کا رقبہ مختلف موسموں میں 350 مربع کلومیٹر سے 520 مربع کلو میٹر تک ہوتا ہے۔ یہ جھیل بے شمار پرندوں کا مسکن ہے اور سردیوں میں یہاں سائیبریا سے بھی مہاجر پرندے سردیاں گزارنے آتے ہیں۔ یہاں میٹھے پانی کی مچھلی بھی کافی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ تاہم سیم نالے کا کھارا پانی جھیل میں ڈالنے کی وجہ سے یہ آلودگی کا شکار ہے اور یہاں کی جنگلی اور آبی حیات شدید متاثر ہے۔ یہ ایک تفریحی مقام بھی ہے اور تعطیلات کے دنوں میں کافی لوگ تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں۔

کینجھر جھیل

کینجھر جھیل جو عام طور پر کلری جھیل کہلاتی ہے کراچی سے ایک سو بائیس کلو میٹر کی مسافت پر ضلع ٹھٹہ میں واقع ہے۔ یہ پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل ضلع ٹھٹہ اور کراچی میں فراہمی آب کا ایک اہم زریعہ ہے۔ جھیل بے شمار پرندوں کا مسکن ہے اور اس کو پرندوں کے لیے محفوظ قرار دے دیا گیا ہے۔ سردیوں میں یہاں سائیبریا سے بھی مہاجر پرندے سردیاں گزارنے آتے ہیں۔ کینجھر جھیل ایک مشہور اور مقبول سیاحتی مقام بھی ہے۔ تعطیلات کے دنوں میں کراچی کے ہزاروں لوگ تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کینجھر جھیل پر ایک ہفتے میں سترہ ہزار لوگ سیر کرنے آتے ہیں مگر ان کے قیام کے لیے یہاں کوئی معیاری بندوبست نہیں ہے اس لئے وہ جلد ہی چلے جاتے ہیں۔ کینجھر جھیل میں موٹر پر چلنے والی چھوٹی کشتیاں ہی سیاحوں کی واحد تفریح ہیں۔

پائی جھیل

پائی جھیل وادیٔ کاغان میں شوگران کے قریب پائی کے سر سبز میدانوں میں واقع ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 9500 فٹ ہے۔ اس کے اردگرد مکڑا کی چوٹی، ملکۂ پربت، موسیٰ دا مصلیٰ اور کشمیر کے پہاڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ جگہ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔

سِری جھیل

سِری جھیل وادیٔ کاغان میں شوگران کے قریب واقع ہے، یہ تقریباً 8500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ سری جھیل ایک تالاب کی مانند ہے لیکن اس کے ارد گرد موجود سر سبز جنگلات اور پہاڑوں نے اسے بہت پُر کشش اور دلکش بنا دیا ہے۔

کٹورے جھیل (جہاز بانڈہ جھیل)

دیر بالا کی خوبصورت ترین وادیٔ کمراٹ سیاحوں کے لیے ابھی تک سر بستہ راز کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں ہی ایک انتہائی خوبصورت اور حسین جھیل کٹورے واقع ہے جس کا نظارہ کسی پر بھی جادو کرسکتا ہے۔ ساڑھے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس جھیل کے ارگرد برف پوش پہاڑ ہیں تاہم جون سے ستمبر تک یہاں جایا جاسکتا ہے۔

ماہو ڈنڈ جھیل

ماہو ڈنڈ جھیل ضلع سوات کی تحصیل کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر وادیٔ اسو میں واقع ہے۔ اس جھیل میں مچھلیوں کی بہتاب ہے اس لیے اسے ماہو ڈنڈ جھیل یعنی مچھلیوں والی جھیل کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کیمپنگ کے شائق ہیں تو جھیل کے کنارے سبزہ زار پر بلاخوف و خطر اپنا خیمہ نصب کر سکتے ہیں۔ یہاں ٹراﺅٹ مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ جھیل کی جانب جانے والے راستے میں کئی بہت خوب صورت مقامات آتے ہیں جن میں گلیشیئر، پلوگا اور آبشار قابل ذکر ہیں۔ آبشار نامی مقام اتنا خوب صورت ہے کہ ماہو ڈنڈ جانے والی گاڑیاں کچھ دیر کے لئے اس مقام پر رک جاتی ہیں اور سیاح 1500 فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے اس طویل اور پر عظمت آبشار کا نظارہ کرنے لگتے ہیں۔


تصاویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز، وکی پیڈیا