بلڈپریشر سے بچاﺅ کے لیے 10 بہترین غذائیں

بلڈپریشر سے بچاﺅ کے لیے 10 بہترین غذائیں

فشار خون یا بلڈ پریشر کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے جو آہستہ آہستہ جسم کو مختلف امراض کا شکار کرکے موت کی جانب لے جاتا ہے خاص طور پر اس کے شکار افراد میں شدید غصہ دماغ کو جانے والی شریان کے پھٹنے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے جس سے فالج جیسا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔

اس مرض کے شکار افراد کے لیے غذا بھی خاص ہوتی ہے خاص طور پر نمک سے گریز کیا جاتا ہے تاہم ایسی خوراک کی کمی نہیں جو منہ کا مزہ بھی برقرار رکھتی ہیں اور بلڈپریشر کو بھی قدرتی طور پر متوازن سطح پر رکھتی ہیں۔

ایک سروے کے مطابق تقریبا 52 فیصد پاکستانی آبادی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور 42 فیصد لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں کیوں مبتلا ہیں۔

ایسے ہی چند فوڈز کے بارے میں جاننا آپ کے لیے انتہائی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

کیلے



— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

کیلے پوٹاشیم کے حصول کا قدرتی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور اس معدنیات کی کمی جسم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے خاص طور پر پٹھوں اور دل کی دھڑکن پر۔ کیلے نہ صرف پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں بلکہ اس میں سوڈیم (نمکیات) کی شرح بھی کم ہوتی ہے جو اسے ہائی بلڈپریشر کے شکار افراد کے لیے ایک بہترین پھل یا غذا بناتا ہے۔

دہی



— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

دہی کیلشیئم سے بھرپور ہوتا ہے جس کی کمی ہائی بلڈپریشر کا خطرہ بڑھاسکتی ہے۔ دہی میں نمکیات کی مقدار بھی کم ہوتی ہے اور دن بھر میں تین بار کا چھ اونس استعمال فشار خون کی شرح کو معمول پر لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور اس کا مزہ بھی ہر ایک کے دل کو بھاتا ہے۔

نمک سے پاک گرم مصالحہ



— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

کسی دکان سے مکس گرم مصالحہ لینے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ مصالحوں میں نمک بھی شامل کردیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں دارچینی اور دیگر مصالحوں کو الگ الگ لے کر انہیں خود ملائیں جو ہر کھانے کا مزہ بھی بڑھا دیتے ہیں بلکہ یہ بلڈپریشر کی شرح کو قدرتی طور پر کم سطح پر لانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

دارچینی



— وکی میڈیا کامنز
— وکی میڈیا کامنز

دارچینی بلڈپریشر کو معمول پر لانے میں کرشماتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ کولیسٹرول لیول کو بھی کم کرتی ہے۔ اس مصالحے کو غذا کے ساتھ ساتھ میٹھی ڈشز اور مشروبات میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے بلکہ اپنے ہر کھانے میں اس کو شامل کرنا آپ کی صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔

آلو



— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

آلوﺅں میں پوٹاشیم کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ یہ معدنیاتی عنصر بلڈپریشر کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، مزید یہ کہ آلوﺅں میں نمکیات کی مقدار کم، چربی سے پاک اور فائبر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو اسے کسی بھی وقت کھانے کے لیے مثالی بناتا ہے خاص طور پر انہیں ابال یا پکا کر کھانا زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے۔

مچھلی



— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

مچھلی پروٹین اور وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں بلڈپریشر کی شرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ مچھلی میں صحت بخش اومیگا فیٹی ایسڈز بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ دوران خون کولیسٹرول کی شرح کو کم رکھنے کے لیے فائدہ مند عنصر ہے۔

جو کا دلیہ



— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

جو کا دلیہ بلڈ پریشر کے شکار افراد کے لیے ایک مثالی اور مزیدار انتخاب ہے، یہ غذا فائبر سے بھرپور ہوتی ہے جو کہ بلڈپریشر کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اس سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، اسے مختلف تازہ پھلوں کے ساتھ بھی استعمال کرکے منہ کا ذائقہ دوبالا کیا جاسکتا ہے۔

لوبیا



— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

لوبیے کے بیج بھی فشار خون کے مریضجوں کے لیے بہترین انتخاب ہے، یہ بیج پروٹین، فائبر اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں اور انہیں ابال کر بھی تیار کیا جاسکتا ہے، ابالنے کے بعد جب یہ نرم ہوجائیں تو انہیں دیگر سبزیوں میں ڈال کر مزیدار پکوان تیار کیے جاسکتے ہیں جو کہ طبی لحاظ سے بھی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

پالک



— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

پالک آئرن، فائبر، وٹامن اے اور سی سے بھرپور سبزی ہے، یہ کیلشیئم کے حصول کے لیے بھی اچھا ذریعہ ہے جو کہ بلڈپریشر کی شرح کم کرنے والی غذا کے لیے ایک اہم جز ہے۔ اس سبزی سے مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے یعنی اسٹیو، سلاد یا پاستا وغیرہ کے ذریعے بھی۔

السی کے بیج



— بشکریہ ہفنگٹن پوسٹ
— بشکریہ ہفنگٹن پوسٹ

یہ بیج فلیکس سیڈ پودے سے حاصل ہوتے ہیں اور یہ بلڈپریشر کی شرح کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ یہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے بھرپور ہوجاتے ہیں جو کولیسٹرول لیول کو کم رکھنے کا کام کرتا ہے۔ پیسے ہوئے بیجوں کو صبح کے ناشتے میں دہی یا دلیہ وغیرہ میں شامل کرکے یہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔


نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔