پشاور: حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت فراہم کی جارہی ہے جبکہ دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کرم ایجنسی کے مکینوں سے ہتھیار جمع کروائے جارہے ہیں۔

کرم ایجنسی کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی اور ان کی دیگر میراملٹری ملائشیا نے چار روز قبل پارا چنار کے مغربی علاقے کے ایک گاوں بھگڈی میں سرچ آپریشن کے دوران تمام گھروں سے اسلحہ جمع کرکے تحویل میں لے لیا۔

انجمن حسینیہ کے سربراہ حاجی گل اختر جو توری کی تمام زیلی قبائل کی ترجمانی کرتے ہے، نے بھگڈی گاوں میں سرچ آپریشن کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعے کے حوالے سے توری عمائدین نے پولیٹیکل ایجنٹ امجد علی خان سے رابطہ کیا تھا جس پر انھوں نے توری قبائل کی جانب سے کی جانے والی حمایت کو سراہا اور گاوں والوں کے ہتھیار جلد واپس کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی۔

بھگڈی گاوں جس مقام پر واقع ہے اس کے ساتھ افغانستان کا صوبہ پکتیکہ منسلک ہے، گل اختر کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال دہشت گرودوں نے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر سیکیورٹی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا تھا جس میں بہت سے سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے بعد مذکورہ گاوں کے مکینوں نے سیکیورٹی فورسز کی لاشوں کو لانے اور ایک حملہ آور کو گرفتار کروانے میں سیکیورٹی اہلکاروں کو مدد فراہم کی تھی۔

ان کا کہان تھا کہ کرم ایجنسی میں تین روز قبل قبائلی عمائدین کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ تمام مقامی افراد اپنے بھاری ہتھیار جمع کروادیں بصورت دیگر فوج علاقے میں اسلحہ جمع کرنے کیلئے آپریشن کرے گی۔

گل اختر کا کہنا تھا کہ قبائلی عمائدین جلد اس حوالے سے ملاقاتیں کرے گے اور اس بات کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔

ڈان کے نمائندے سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے نجیب توری کا کہنا تھا کہ بنیامین، الزئی، انزائی اور ان کے ساتھ منسلک دیگر گاوں میں اعلان کروائے گئے تھے کہ وہ اپنے بھاری ہتھار جمع کروادیں۔

ان کا کہنا تھاکہ ایسے موقع پر جب سیکیورٹی فورسز دیگر علاقوں میں دہشت گردوں سے لڑرہی ہے کرم ایجنسی کے لوگوں سے ہتھیار ڈلوانا کے فیصلے نے ان لوگوں میں خوف پیدا کردیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح دہشت گردوں کی جانب سے ان کے لوگوں کو نشانہ بنانا آسان ہو جائے گا۔

فاٹا میں امن وامان کے سیکرٹری شکیل قادر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ حکومت کی جانب سے احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ یہاں کے لوگ اپنے پاس بھاری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں کی حفاظت کرنا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

سیکرٹری کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی بھی قسم کی سرحد پار دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے باجوڑ اور مہمند ایجنسیز میں گاوں کی سطح پر دفاعی کمیٹیاں تشکیل دی ہے۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خواتین اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت کا آغاز کردیا ہے۔

دوسری جانب آرمی کے انسٹرکٹرز مہمندی ایجنسی کے علاقے گھالانی میں خواتین اساتذہ کو رائفلز اور پسٹل جلانے کی تربیت دے رہے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی گذشتہ روز صوبائی حکوت کو احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ وہ پشارو کے وکلا کو ممنوع بور کے اسلحہ کیلئے لائسنس جاری کئے جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں