فاٹا کے حل طلب مسائل اور حکومتی بے حسی

اپ ڈیٹ 17 فروری 2015
ایک پاکستانی سپاہی فاٹا میں راکٹ لانچر کے ساتھ پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے — رائٹرز
ایک پاکستانی سپاہی فاٹا میں راکٹ لانچر کے ساتھ پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے — رائٹرز

قبائلی عوام اور ان کو درپیش دیرینہ مسائل سے متعلق کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ان مسائل میں کافی گھمبیر اور اُلجھے ہوئے مسائل ہیں جو کہ طویل المدتی منصوبوں اور پیچیدہ اقدامات کے بعد ہی حل ہو سکتے ہیں لیکن ان میں بعض انتظامی نوعیت کے ایسے مسائل بھی ہیں جو بغیر کسی سرمایہ کاری و لشکر کشی کے حل ہو سکتے ہیں۔

مسائل بے شمار ہیں اور نوعیت بھی الگ الگ ہیں۔ سرِدست ہم فاٹا میں انصاف، صحت اور تعلیم جیسے مسائل کا ذکرِ خیر کر رہے ہیں۔ آپ یقین کیجیے کہ ان انتظامی مسائل کو فاٹا کے اکثر علاقوں میں با آسانی حل کیا جا سکتا ہے لیکن نہ تو اس سے پہلے کسی نے صحیح معنوں میں دھیان دیا اور نہ ہی موجودہ بر سر اقتدار لوگ توجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان مسائل کے حل کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت بھی نہیں۔

حیرانی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ فاٹا کی اہمیت 9/11 کے بعد بڑھ چکی ہے۔ موجودہ صورتحال میں پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہونے اور افغانستان کے اندرونی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اس قبائلی پٹی کی اہمیت اور حساسیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فاٹا کے وہ مسائل جو آسانی سے حل ہو سکتے ہیں، اب تک حل ہو چکے ہوتے تاکہ یہاں پر احساسِ محرومی میں اضافہ نہ ہوتا۔ یہاں کے باشندوں کو اپنائیت کا احساس ہوتا کیونکہ یہ لوگ بہت ہی محب وطن لوگ ہیں۔

چند سال پہلے کی بات ہے۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے ایک پولیٹیکل ایجنٹ محمد اعظم کھلی کچہریاں قائم کرتے تھے۔ یہ کچہریاں ہر جمعے کے روز سجائی جاتی تھیں۔ ایجنسی کے صدر مقام وانا میں کھلی کچہری میں لوگ پی اے صاحب کو شکایات پیش کرتے تھے اور اس دوران کئی افراد کو ریلیف بھی ملا لیکن موصوف زیادہ عرصے تک اس پوسٹ پر نہ رہ سکے۔ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایک بار قطار میں کھڑے ایک بزرگ قبائلی نے انتہائی دردمندانہ انداز میں ایک رشتہ دار کے بارے میں درخواست پیش کی اور کہا کہ صاحب، ہمارا عزیز کافی عرصہ ہوچکا ملک کے کسی بڑے جیل میں پڑا ہے جبکہ جرم اتنا بڑا نہیں تھا۔

پڑھیے: پولیٹیکل ایجنٹوں کے محاسبے کا خواب

پی اے صاحب نے ریکارڈ منگوایا تو پتہ چلا کہ یہ ایک نوجوان ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے ایک جوڑا پلاسٹک کے چپل (غالباً قیمت 50 سے 70 روپے) چوری کی ہے اور مہینوں نہیں سال گزر گئے کہ جیل کاٹ رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں قانون و انصاف کا بول کس قدر بالا ہے۔ یہ وہاں کی خود ساختہ سزائیں ہیں جو گریڈ 5 کا انسان وہاں کے باعزت شہری کو دے سکتا ہے۔

اسی طرح سے وانا کی ایک خاصہ دار کمپنی میں ایک غیر مقامی شخص بھرتی ہوا۔ دن دگنی رات چگنی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے یہ صاحب پوری ایجنسی کے ڈیولپمنٹ کلرک بن گئے۔ موصوف کی اپنی ایک شاندار گاڑی، 2006 سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شاندار مکان اور بھی بہت کچھ۔ موصوف ایک طاقت ور آفیسر نما کلرک ہیں۔ آج کل بھی ایک خوش باش اور پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ طاقت کا اندازہ اس بات سے قارئین لگا سکتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک میٹنگ میں (اس واقعے کا بندہ خود گواہ ہے) کسی نے آفسر خاص کا ذکر مبارک چھیڑا تو گیلانی صاحب نے پوچھا کہ یہ کیسا انسان ہے؟ تو مکمل تفصیل بمع کرپشن کی سارے داستان ایک ہی مجلس میں سنوا دی گئیں۔

یادش بخیر کہ گورنر صاحب، سیکرٹری فاٹا لاء اینڈ آرڈر اور ایڈیشنل سیکرٹری فاٹا سے لے کر پولیٹیکل ایجنٹس تک سب موصوف کی حلال کی روزی روٹی سے واقف تھے اور تا دم تحریر ان شخصیات کو ہم غافلوں کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکتے۔ لیکن کس کی مجال کہ کچھ کر سکیں؟

ایک اور مثال ہے کہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال وانا کے لیے 2004 میں آرتھوپیڈک امیج مشین 60 لاکھ روپے سے خریدی گئی، لیکن تاحال یہ مشین 25 ہزار روپے کے ایک ٹیبل کی عدم موجودگی کی بنا پر گرد و غبار میں پڑی ہے۔ اس کی رپورٹ ڈائریکٹر ہیلتھ فاٹا، گورنر ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، فاٹا سیکرٹریٹ میں 2009 میں پھر 2011 میں پہنچائی گئی۔ ایک بار وہاں کے ایک سرجن نے رپورٹ دی تھی کہ مشین فنکنشل ہے لیکن جب ہم نے ہسپتال کے اندرونی ذرائع سے چیک کیا تو گنگا اُلٹی سمت والی بات تھی۔

ان تین مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قبائلی علاقوں کے مسائل کیا ہیں اور یہاں قانون اور انصاف کا معیار کیا ہے۔ جمہوری حکومتیں ہو یا دورِ آمریت، کسی نے بھی صحیح معنوں میں قبائل کا حق ادا نہیں کیا۔

صحت، تعلیم اور سستا انصاف، یہ تینوں بنیادی آئینی حقوق ہیں۔ حکومت اگر چاہے تو بہت ہی قلیل مدت میں یہ تینوں حقوق قبائلیوں کو باآسانی دے سکتی ہے کیونکہ ان مسائل کی نوعیت انتظامی ہے۔ انصاف، صحت اور تعلیم جیسی سہولیات کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے گورنر صاحب کے صرف عزم مصمم کی ضرورت ہے۔ آج ہی گورنر صاحب ایک نوٹیفیکشن جاری کردیں کہ ایک ہفتے کے اندر تمام تعلیمی اداروں میں 100 فیصد حاضری ہونی چاہیے بصورتِ دیگر معطلی اور جرمانہ ہوگا۔ ایک ہی کاغذ کے ٹکڑے پر دو تین جملے محکمہ صحت فاٹا کے نام لکھ دیں اور ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دیں کہ ڈیوٹی سے غفلت پر معطلی اور بھاری جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح ہر محکمے کے نام ایک لیٹر لکھ دیں اور نتائیج کے لیے مانٹیرنگ ٹیم اور ہیلپ لائن کا انتظام کرتے۔ انشاء اللہ کچھ ہی عرصے بعد حالات میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔

مزید پڑھیے: فاٹا میں مستقبل کے نظام کی بحث

لیکن یہ صرف ایک خواب ہی لگتا ہے۔ کاش وزیر اعظم نواز شریف اور صدر مملکت حالات کی نزاکت کو سمجھتے۔ کیوں یہ دونوں حضرات باری باری تمام ایجنسیوں کے تفصیلی دورے نہیں کرتے؟ کیوں قبائلی عوام کے احساس محرومی کو کم نہیں کرنا چاہتے؟ کیا سارے کام فوج ہی کرے؟ صحافتی خیانت ہوگی اگر یہ نہ کہوں کہ جنوبی وزیرستان میں پاک فوج نے متعدد تر قیاتی منصوبے مکمل کیے۔ لیکن آپ منتخب وزیر اعظم ہیں۔ قبائلی پٹی میں آپریشنز جاری ہیں، کثیر تعداد میں لوگ بے گھر ہیں ان کو حوصلے کی ضرورت ہے۔ ان کے مسائل سے خود کو آگاہ رکھنے کا وقت ہے۔

ہمارے ساؤتھ وزیرستان کے کچھ قبائلی لوگ سرحد کے اُس پار رہتے ہیں۔ وہاں پر افغان حکومت، افغان نیشنل آرمی، اور بعض ذرائع کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے کارندے طبی عملے کی صورت میں غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں افغانستان میں موجود ہیں ایسے میں ہماری سوئی یا تو میٹرو بس پر اٹکی ہوئی ہے، یا چار حلقوں کے علاوہ ہمارا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔

ارباب اختیار کے لیے یہ کوئی پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ ایک کمزور، کم معلومات کے حامل جونئیر رپورٹر کی حیثیت سے قبائل کی نبض کا حال بتا رہا ہوں کہ جب تک یہاں انصاف، روزگار، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات عوام کو میسر نہ ہوں، تب تک اس علاقے میں امن کا دعویٰ کرنے کا تصور بھی نہ کریں۔ ویسے بھی یہاں کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں۔ یہاں پر قلیل مدتی اور طویل المدتی منصوبوں کی اشد ضرورت ہے، صرف ایڈہاک پالیسی سے کام نہیں چل سکتا۔ مشرف اس کو آزما چکے ہیں لیکن نتائج صفر ہی رہے۔ عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور احساسِ محرومی نیک شگون ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہاں کے لوگوں کے منتخب کردہ نمائندوں کی بس اتنی سی حیثیت ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پوری قومی سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھتی ہے لیکن قبائل کی نمائندگی صفر رہی جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا مرکز ہی قبائلی علاقے ہیں۔ کاش قبائلی عوام کی رائے بھی معلوم کرنے کی زحمت کی جاتی۔ قبائلی عمائدین، ریٹائرڈ قبائلی افسران اور اکثر حاضر سروس آفیسرز، دانشوراور علماء کرام کو اعتماد میں لیا جائے تو یہ لوگ بہتر رہنمائی کروا سکتے۔

قبائل میں صاحب الرائے افراد کی کمی نہی لیکن لگتا ہے کہ وفاقی حکومت ترجیحات کے تعین میں تردد کا شکار ہے۔ وگرنہ قبائلی علاقوں کے تقریبا 20 لاکھ سے زائد افراد اس وقت بے گھر ہیں اس سے بڑا قومی مسئلہ اور کوئی ہوسکتا ہے؟ حکومت ہو یا اپوزیشن، سب نے صرف میڈیا میں بیانات تک اس کو اپنی ترجیحات میں رکھا ہے۔

غور کرنے کی بات ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کا کل بجٹ غالباً 44 ارب روپے ہے جبکہ پوری قبائلی پٹی جہاں ایک کروڑ سے زائد انسان بستے ہیں، آپریشن زدہ علاقے ہیں، اور ان تمام ایجنسیوں کا سالانہ بجٹ 19 ارب سے بھی کم ہے، حالانکہ ترقیاتی کام ہو یا تعمیرِ نو، خصوصی ریلیف پیکجز کی جتنی ضرورت قبائلی علاقہ جات کے لیے ہے شاید ملک کا کوئی اور حصہ اتنا زیادہ مستحق ہو۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قبائل کسی علاقائی یا لسانی تعصب کے شکار ہیں۔ یہاں کے باشندے انتہائی کشادہ دل اور وسیع النظر ہیں۔

جانیے: اب فاٹا کو پاکستان میں شامل کرنے کا وقت ہے

یہاں کے لوگ محبِ وطن ہیں۔ انسان دوست ہیں۔ محنت کش ہیں۔ بیرون ممالک سے زرمبادلہ ملک تک لانے میں ان کا خاص رول رہا ہے۔ تعلیم سے محبت رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کی طرف از سر نو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر امن قائم ہو تو یہاں کے قیمتی معدنیات سے ملکی زرمبادلہ میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ کوئلہ، ماربل، کاپر، گیس اور تیل کے کافی ذخائر موجود ہیں۔ یہاں بہت ہی قیمتی جنگلات ہیں۔ انہی کی وجہ سے مقامی افراد کو روزگار کے بے شمار مواقع میسر ہو سکتے ہیں۔

یہاں سرکاری مقبوضہ اسکولوں کی بڑی تعداد ہے، تیار عمارتیں ہیں، لیکن ان کو مہمان خانوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اب یہ ان لوگوں کے پاس ہوا کرتے ہیں جن کے مقامی سرکار کے ساتھ دو طرفہ خوشگوار تعلقات ہو۔ جہاں شورش نہیں اور حکومت کی رٹ موجود ہے وہاں صحت، تعلیم، انصاف اور دوسرے مسائل انتہائی آسانی سے حل کیے جا سکتے ہیں اور انتہائی کم مدت میں ان مسائل میں 50 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

ان مسائل کے حل میں نہ تو دھرنے حائل ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رول ہے جس کو بہانہ بنا کر منہ موڑ لیا جائے۔ یہاں پاک فوج سکیورٹی اور ترقیاتی کاموں میں حصہ لے رہی ہے تو حکومت پھر کس مرض کی دوا ہے؟ لیکن وفاقی حکومت کو ملک کے دیگر میگا پراجیکٹس سے فرصت ملے تو یہاں پر کچھ نظرِ کرم ہو نا؟ بس یہ یاد رکھیے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ تب تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک آپ لوگوں کا احساسِ محرومی ختم کر کے ان کے دل اس حد تک نہیں جیت لیتے کہ وہ خود اس جنگ میں آپ کی مدد کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں