چینیوٹ میں سونے کی تلاش؟

20 فروری 2015
چینیوٹ میں ڈرلنگ میں مصروف چینی ورکرز — فوٹو ناصر جمال
چینیوٹ میں ڈرلنگ میں مصروف چینی ورکرز — فوٹو ناصر جمال

آپ سام برینن کو چینیوٹ کی گلیوں میں یہ نعرہ لگاتے بھاگتے ہوئے نہیں دیکھیں گے " سونا! سونا! سونا!" اور نہ ہی سونے کے متلاششی افراد کا ہجوم شہر میں کسی جگہ نظر آئے گا۔

چینیٹوٹ شہر جو ہاتھ سے تیار کردہ لکڑی کے فرنیچر ، چمڑے اور ٹیکستائل مصنوعات کے حوالے سے جانا ہے، وہ زرد دھات کی (دوبارہ) دریافت سے متاثر نہیں ہوا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ دنیا میں لوہے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے۔

میڈیا میں اس حوالے سے جوش و خروش اس وقت دیکھنے میں آیا جب وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں رجوعہ میں ایک ڈرلنگ مقام کا دورہ کیا جسے اب کوءیبھی تلاش نہیں کرسکتا۔

ایک اسکول کے استاد عارف علی کے مطابق " ہم جانتے ہیں کہ لوہے کے ذخائر سے طویل عرصے سے واقف ہیں مگر سونے کے حوالے سے دعویٰ مجھے بہت زیادہ مبالغہ آمیز لگے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟"

تاہم وہ اس بات سے خوش ہیں کہ خام لوہے کو نکالنے سے ایک اسٹیل مل کے قیام کی راہ کھلے گی جس کا وعدہ حکومت نے کیا ہے اور اس سے چینیوٹ اور ملحقہ علاقوں کے ہزاروں افراد کے لیے روزگار کے نئے مواقع سامنے آئیں گے۔

ان کے بقول " اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارے بچوں کو ملازمتوں کی تلاش کے لیے لاہور یا کراچی نہیں جانا پڑے گا"۔

جھنگ بائی پاس پر ایک مقام پر چینی ورکرز کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار نے بھی اسی طرح کے شبہات کا اظہار کیا " کچھ نمونوں میں سونے کے ذرات ملے ہیں، مگر آپ بھی جانتے ہیں کہ ان چٹانوں میں سونے کی موجودگی کے مقابلے میں شور زیادہ ہورہا ہے"۔

میٹالورجیکل کارپوریشن آف چائنا (ایم سی سی) مختلف مقامات پر ڈرلنگ کررہی ہے اور اس نے چینیوٹ کے ارگرد سے نمونے اکھٹے کیے ہیں۔

ایم سی سی کے ایک ترجمان نے ڈان کو بتایا " ہم نے پراجیکٹ کے 28 اسکوائر کلومیٹر کے مختلف پوائنٹس پر سات رگز نصب کیے ہیں"۔

یہ ترجمان چینیوٹ کے نیم دیہی علاقے ابراہیم ٹاﺅن میں سخت سیکیورٹی میں جاری ڈرلنگ کے موقع پر ڈان سے بات کررہا تھا اور اس نے پراجیکٹ کی تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا " آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ پنجاب منرل کمپنی سے رجوع کریں (یہ پنجاب حکومت کی ملکیت کمپنی ہے جس کی سربراہی ریٹائرڈ جوہری سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کررہے ہیں اور یہ کمپنی پراجیکٹ کے معاملات اور فنڈز کی نگرانی بھی کررہی ہے)"۔

ترجمان نے سونے اور خام تانبے کے ذکائر کے تخمینے کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کیں " اس وقت کچھی بھی حتمی نہیں ہوا ہے، ہم اس حوالے معلومات لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس مکمل ہونے کے بعد شیئر کریں گے"۔

ایم سی سی گزشتہ سال مئی میں کنوﺅں کی ڈرلنگ شروع کی تھی اور پچاس مقامات سے نمونے اکھٹے کرکے پراجیکٹ کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری شروع کی تھی، تاہم یہ بات بھی پنجاب حکومت یا ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو یہ دعویٰ کرنے سے نہیں روک سکی کہ چینیوٹ میں سونے اور تانبے کے ذخائر بلوچستان میں سینڈک اور ریکوڈک میں دریافت ہونے والے ذخائر سے بھی بڑے ہیں۔

رجوعہ کے گاﺅں ڈنگرے والا میں وزیراعظم کی آمد کے بعد سے تمام ڈرلنگ مقامات پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور کسی کو بھی پاکستانی اور چینی ورکرز تک رسائی یا مشینوں کی تصاویر لینے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

ساڑھے چار سو سے پانچ تک ایلیٹ فورس کے اہلکار کو یہاں چالیس سے پچاس چینی ورکرز کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

جب ہم ابراہیم ٹاﺅن میں کھودے جانے والے تین میں سے ایک کنویں کے پاس پہنچے تو ایک پولیس اہلکار نے چیخ کر کہا " آپ یہاں نہیں آسکے یہ سخت سیکیورٹی والا مقام ہے"۔

اس کا کہنا تھا " آپ کو کسی معلومات کی ضرورت ہے تو چینی کمپنی کے ترجمان سے بات کریں"۔

سائٹ سے کچھ میٹر کے فاصلے پر ایک دیہاتی اللہ یار فکرمند تھا کہ اگر نمونوں کے آخری ٹیسٹوں میں قیمتی دھاتوں کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی تو حکومت ان کے گھروں اور زرخیر زمینوں کو حاصل کرلے گی۔

اللہ یار نے کہا " ہر ایک فکرمند ہے، ہم اس بات پر خوش ہی نکہ اس دریافت سے ملکی مستقبل بدل جائے گا مگر یہاں رہنے والے اور ان زمینوں پر کاشت کرنے والے افراد کیا کریں؟ چینی کمپنی کی جانب سے کھدائی کے لیے حکومت نے تین ماہ سے ہماری زمینوں کے ایک حصے کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے اور مالکان کو کرایہ بھی ادا نہیں کیا جارہا"۔

علاقے کے ایک اسٹیٹ ایجنٹ نے تصدیق کی کہ اب تک چینی کمپنی کی جانب سے " زمین کے استعمال پر کسی فرد کو زرتلافی" کی ادائیگی نہیں ہوئی۔

اس نے بتایا " حکومت نے زمینوں کے مالکان سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جبکہ لوگوں نے پولیس کے ڈر سے اپنے منہ بند کررکھے ہیں"۔

ڈنگرے والا کے ایک رہائشی نذیر احمد پرامید ہے کہ ایک بار جب پراجیکٹ کے اقتصادی ثمرات واضح اور اسٹیل مل کا قیام عمل میں آجائے گا تو زمینوں کے مالکان کو رائلٹی مل سکے گی " تاہم ابھی بھی زمینوں کے مالکان خوفزدہ ہیں کہ حکومت نے اگر مارکیٹ قیمت 20 سے 50 لاکھ کی بجائے سرکاری نوٹیفائڈ ریٹ آٹھ سے دس لاکھ فی ایکڑ پر اراضی کی ملکیت حاصل کرلی تو پھر کیا ہوگا؟"

ڈنگرے والا میں پولیس اہلکاروں نے ہمیں مخصوص علاقے کے اندر جانے اور ایک پاکستانی ورکر سے بات چیت کا موقع فراہم کیا اور اس ورکر نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا " چار چینی افراد سمیت متعدد پاکستانی بارہ بارہ گھنٹوں کی دو شفٹوں میں ہر کنویں کی سائٹ پر کام کررہے ہیں"۔

اس کا کہنا تھا " اگرچہ ہمیں اچھی اجرت یعنی اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ مل رہے ہیں تاہم یہاں ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور نہیں اور ہمیں ایمرجنسی کے علاوہ اپنے گھر جانے کی بھی اجازت نہیں"۔

تبصرے (0) بند ہیں