نئی مساجد و مدارس کی تعمیر حکومتی اجازت سے مشروط

22 فروری 2015
ایک مدرسے کی تصویر — اے پی فائل فوٹو
ایک مدرسے کی تصویر — اے پی فائل فوٹو

کراچی : صوبائی سطح پر قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے سندھ حکومت نے محکمہ داخلہ کی اجازت کے بغیر نئے مدارس اور مساجد کے قیام پر پابندی کا فیصلہ کرلیا۔

حکومت نے جامشورو میں ہائی پروفائل دہشت گرد ملزمان کے لیے ایک ' سخت سیکیورٹی والی جیل' کی تعمیر کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

یہ اہم فیصلے سیکرٹری داخلہ سندھ عبدالکبیر قاضی کی زیرصدارت ہونے والے ایک اجلاس میں کیے گئے جس میں قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کے سنیئر حکام نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں کیے جانے والے دیگر اہم فیصلوں میں رواں سال کے اختتام تک تمام افغان مہاجروں کی واپسی، مساجد و مدارس کے لیے ضوابط کے لیے قانون سازی، پولیس میں نئے قائم کیے گئے انسداد دہشت گردی محکمے کے لیے بھرتیاں اور اہم شہروں میں تفتیش اور پراسیکیوشن کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے فزانزک لیب سہولیات کو توسیع دینا شامل ہیں۔

تمام افغان مہاجرین کی واپسی کے ایک ' بڑی مہم' کی ضرورت ہوگی جس میں متعلقہ صوبائی اور وفاقی حکام کے ساتھ ساتھ عالمی اداروں کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

سیکرٹری داخلہ عبدالکبیر قاضی نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا " دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سیاسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور آج کیے جانے والے فیصلے اعلیٰ کمیٹی کے فیصلوں کی تکمیل ہیں جس سے ہم آہنگی کی عکاسی ہوتی ہے"۔

انہوں نے کہا " ان فیصلوں پر ہونے والی پیشرفت پر نظرثانی کے لیے حکام اجلاس کرتے رہیں گے جس میں صوبے میں نئی مساجد و مدارس کی تعمیر کے لیے محکمہ داخلہ سے اجازت بھی شامل ہوگی"۔

انہوں نے بتایا " اسی طرح ہم جامشورو میں رواں ماہ کے اختتام پر ایک ہائی سیکیورٹی جیل قائم کررہے ہیں جہاں تمام ہائی پروفائل دہشت گرد ملزمان کو صوبے کی مختلف جیلوں سے منتقل کیا جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے صوبائی پولیس کی جانب سے بھیجے گئے 84 میں سے 64 مقدمات وزارت داخلہ کو ریفر کیے مگر وزارت تمام 84 مقدمات کی تفصیلات چاہتی ہے تاکہ ان کا جائزہ لینے کے بعد انہیں فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے۔

افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا " سندھ میں لگ بھگ 27 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں، اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ 31 دسمبر 2015 تک انہیں واپس بھیج دیا جائے گا اور اس ڈیڈلائن میں توسیع نہیں ہوگی"۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ نے کہا " غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت ایکشن کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اسی طرح مساجد میں لاﺅڈ اسپیکرز کے استعمال کو بھی ضابطوں کے تحت لایا جائے گا اور صرف اذان، نماز جمعہ کے خطبے اور نماز جمعہ کے لیے ہی ان کا استعمال ہوسکے گا، علاقے کی انتظامیہ مقامی پولیس کی معاونت سے ان احکامات پر عملدرآمد کی ذمہ داری ہوگی"۔

پولیس کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو نے بتایا کہ ایک ہزار کے لگ بھگ اہلکاروں کو کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے لیے بھرتی کیا جائے گا، جبکہ ان کی تربیت پاک فوج کی زیرنگرانی ہوگی۔

انہوں نے مزید بتایا " کراچی کے لیے محکمہ داخلہ نے دو پولیس اسٹیشنز اس نئے ادارے کے زیرتحت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جہاں صرف دہشتگردی کے مقدمات درج کیے جائیں گے جبکہ ان کی تفتیش کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے گا، اسی طرح ایک، ایک پولیس اسٹیشن حیدرآباد اور سکھر میں جلد قائم کیے جائیں گے"۔

ان کا کہنا تھا " ایک اچھی خبر یہ ہے کہ آج نادرا کے ساتھ ہم نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت یہ ادارہ بائیومیٹرک تصدیقی نظام کے ذریعے مشتبہ افراد کی شناخت کے لیے کراچی پولیس کو سہولیات فراہم کرے گا، اس سے ہمیں جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کا موقع ملے گا جس میں ان کے انگوٹھے کے نشانات اور خاندان کی تفصیلات وغیرہ شامل ہوں گی"۔

قبل ازیں اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ سندھ بھر میں بڑی تعداد میں مساجد کے ساتھ ایک ہزار کے قریب مدارس قائم ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں