اسلام آباد: اراکین پارلیمنٹ اور سماجی رہنماؤں نے اسکول کے نصاب میں سے انتہا پسندانہ سوچ پر مبنی مواد کے اخراج کا مطالبہ کیا ہے۔

مختلف سیاسی و سماجی پس منظر اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیمی نظام میں سے انتہاءپسندی کا خاتمہ کیا جائے۔

اس قومی اجلاس کے مقررین نے کہا کہ پاکستان کی غیرمسلم برادریوں کے لیے کوٹہ جاری کرنے اور وسائل کو مختص کیا جائے، علاوہ ازیں انہوں نے تمام طالبعلموں کے لیے ’اخلاقیات‘ کو لازمی مضمون قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

اس وقت اسلامیات کے بجائے’اخلاقیات‘ کے مضمون کی تعلیم غیرمسلم طالبعلموں کو دی جارہی ہے۔

جمیعت علمائے اسلام ف کی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر نے کہا کہ ماضی میں سیاسی طور پر امتیازی سلوک کے مظاہرے کی وجہ سے ہم نے سولہ دسمبر 1971ء کو ملک کا ایک حصہ گنوا دیا تھا۔

آسیہ ناصر نے کہا کہ ’’پھر تعلیمی نظام میں بنیاد پرستی پیدا کی گئی، اور ہم نے پشاور میں سولہ دسمبر 2014ء میں اسکول پر لرزہ خیز حملے کا سامنا کیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی اقلیتوں کی جانب سے قائم کیا گیا تھا، اس لیے کہ انہیں خدشہ تھا کہ اکثریتی برادری ان کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کرے گی۔

واضح رہے کہ آسیہ ناصر جمعیت العلمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی مسیحی رکن قومی اسمبلی ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’لیکن اب وہ اسی طرح کی صورتحال کا پاکستان میں سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی کی اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی شہنیلا روتھ کا کہنا تھا کہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہاں ایک قانون کے تحت صرف مسلمان پنجاب میں ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے اداروں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ غیرمسلموں کو 170 ٹیکنیکل ٹریننگ کے مراکز میں داخلہ نہیں دیا جاتا، اس لیے کہ وہ زکوٰۃ فنڈز سے چلائے جاتے ہیں۔

لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ادارے غیرملکی بالخصوص یورپی امداد بھی وصول کررہے ہیں۔

شہنیلا روتھ نے کہا’’ایک وقت تھا کہ پاکستان میں مسیحی معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کے طور پر پہنچانے جاتے تھے، لیکن اب ان کی حیثیت سینیٹری ورکرز تک محدود کردی گئی ہے۔‘‘

نامور شاعرہ کشور ناہید نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ انتہا پسندوں کا گروپ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا ’’نقاب کے ساتھ یا اس کے بغیر ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔‘‘

کشور ناہید نے کہا کہ اسکول کی کتابوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جیسا کہ اسلامک اسٹڈیز اور سوشل اسٹڈیز کی کتابیں تقریباً ایک جیسی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس طرز کی تدریس خودکش بمبار تیار کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ashian Ali Malik Feb 28, 2015 02:30pm
ہمارے نصاب میں مذہب کے نام پر انتہا پسندی کے فروغ کے لیے بہت سامان دستیاب ہے۔ معاشرتی علوم، اسلامیات کی ہی کتب نہیں اردو کی کتابوں میں بھی مذہب کے حوالے سے ایسے اسباق موجود ہیں جن کو پڑھ کر طالب علم کے ساتھ ساتھ استاد بھی اپنے مذہب کے علاوہ دیگر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو واجب قتل خیال کرتا ہے۔ جبکہ سائنس ، بیالوجہ، فزکس اور کیمسٹری کی کتب میں بھی دنیا بھر کی سائنسی ترقی کو مسلمانوں کا مرہون منت بتایا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری یہی نصابی کتب غیر مسلم طالب علموں کے لیے بھی لازمی قرار دی گئی ہیں۔ یا تو اسلام یا مذہب کو صرف اسلامیات کی کتب تک محدود کیا جائے یا غیر مسلم طیلب علموں کے لیے مکمل نصاب علحدہ سے ترتیب دیا جائے۔ایک اور مسلہ نصاب کی تمام کتابوں میں تاریخ کو بدل کر تحریر کیا گیا ہے یا تاریخ سے بیشتر حقائق کو چپھا کر آدھی تاریخ تحریر شامل نصاب کی گئی ہے۔ جیسے کہ محمد بن قاسم سے متعلق نصابی کتب میں پڑھتے رہنے کے بعد ہم خود کو بہت حد تک واقف محمد بن قاسم تصور کرتے تھے مگر ایک جگہ پر ہم سے محمب بن قاسم کی موت/قتل یا شہادت کے حوالے سے سوال پوچھا گیا اورجواب میں ہم اپنی ٹا نگوں کے بیچ دیکھتے رہے !