الطاف حسین کے خلاف مقدمہ: ردعمل اور سیاست

18 مارچ 2015
الطاف حسین اور آصف علی زرداری — اے پی پی فائل فوٹو
الطاف حسین اور آصف علی زرداری — اے پی پی فائل فوٹو

کراچی : متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین منگل کو ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زد میں اس وقت آگئے جب رینجرز کی جانب سے پیراملٹری فورس کو دھمکیاں دینے پر مقدمہ درج کرادیا گیا۔

قائد ایم کیوایم کے خلاف مقدمہ سول لائنز تھانے میں رینجرز ترجمان کرنل طاہر محمود کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

ڈی آئی جی سائوتھ عبدالخالق شیخ نے اس مقدمے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ الطاف حسین کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 اور 506 بی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔

رینجرز کی جانب سے گیارہ مارچ 2015 کو نائن زیرو پر چھاپے کے بعد آج کی اس پیشرفت کو خصوصی طور پر دیکھا گیا اور سیاسی جماعتوں و قانونی ماہرین کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آیا۔

پی پی پی

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے الطاف حسین سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے اپنی جماعت کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ بن جائے۔

آصف زرداری نے کہا کہ ایم کیو ایم " مشکل وقت" سے گزر رہی ہے اور انہوں نے متحدہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا کہ وہ اس جماعت کو " مشکل کے وقت" میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

مسلم لیگ نواز

مسلم لیگ نواز کے رہنماءرانا ثناءاللہ نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے رینجرز کے خلاف الطاف حسین کی زبان کی مذمت کی تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رینجرز کو ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروانا چاہئے تھا۔

انہوں نے کہا کہ رینجرز کو اپنی توجہ دہشت گردی اور کراچی سے تشدد کو جڑ سے مٹانے پر مرکوز رکھنی چاہئے، قانونی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔

'سیاسی مقاصد'

معروف قانونی ماہر اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن عاصہ جہانگیر نے الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کرانے کو "لاحاصل" قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ " سیاسی مقاصد" کے لیے ہے اور اس میں کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آتی خاص طور پر اس صورت میں جب الطاف حسین لندن میں مقیم ہیں۔

سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین ٹی وی پر ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئے تھے تاہم انہوں نے رانا ثناءاللہ جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لیے کوئی شواہد موجود نہیں۔

ان کا کہنا تھا " میرا نہیں خیال کہ ٹی وی پر الطاف حسین کی دھمکی قابل دست اندازی پولیس ہے، میرا نہیں خیال کہ اس مقدمے کو درج کرانا کوئی اچھا اقدام ہے"۔

کیا یہ ذاتی معاملہ ہے؟

سنیئر تجزیہ کار نذیر لغاری نے کہا کہ الطاف حسین کے ٹی وی پر سامنے آنے والے الفاظ بالکل واضح ہیں " نہ تو پارٹی اور نہ ہی الطاف حسین نے اپنے الفاظ کو واپس لیا ہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ دو افراد یعنی رینجرز کے کرنل طاہر اور الطاف حسین کے درمیان ہے۔

انہوں نے کہا " اگر وہ اس مسئلے کو خود حل کرنا چاہئے، جیسے ایک معذرت سامنے آئے اور قبول کرلی جائے تو یہ معاملہ آسانی سے حل ہوجائے گا، ورنہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا"۔

ایم کیو ایم

ایم کیو ایم کے اراکین قومی اسمبلی اور ورکرز کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کو کراچی آپریشن میں ہدف بنایا جارہا ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنماء خالد مقبول صدیقی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا " الطاف حسین ماضی میں بھی اس طرح کے مقدمات کا سامنا کرچکے ہیں، یہ ان کے لیے کوئی نئی چیز نہیں"۔

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ ان کے قانونی ماہرین الطاف حسین کے خلاف رجسٹر ہونے والے مقدمے کی تفصیلات کا جائزہ لے جارہے ہیں اور جلد اس حوالے سے قانونی حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔

اپنے ایک باضابطہ بیان میں کمیٹی نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک لبرل جمہوری پارٹی ہے اور الطاف حسین کے دفاع کے لیے تمام قانونی اور آئینی راستوں کو اختیار کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Mar 18, 2015 01:01am
ایم کیو ایم پر برا اگیا ھےاور ان پر دباؤ ھے اور آئندہ دنوں میں اس میں تیزی کا امکان ھے ھوسکتا ھے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگ جائے اور اس بات کا بھی امکاں ھوسکتا ھے کہ ایم کیو ایم کو تقسیم کیا جائے