سبین محمود قتل کے بعد، ترقی پسندوں کے لیے تاریک مستقبل؟

27 اپريل 2015
لاہور میں انسانی حقوق کے کارکن خواتین و حضرات سبین محمود کے قتل پر احتجاج کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی
لاہور میں انسانی حقوق کے کارکن خواتین و حضرات سبین محمود کے قتل پر احتجاج کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی

اسلام آباد: انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف مہم جو کی ہلاکت نے ملک بھر کے ترقی پسند افراد کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ریاست کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ استحصال کے خلاف بات کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔

چالیس برس کی سبین محمد کراچی میں سیکنڈ فلور کیفے کی ڈائریکٹر، جہاں باقاعدگی کے ساتھ مباحثوں اور فنون کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، انہیں اس وقت ایک بندوق بردار شخص نے قتل کردیا جب وہ شورش زدہ صوبے بلوچستان میں استحصال کے موضوع پر ایک پروگرام کی میزبانی کے بعد گھر کی جانب جارہی تھیں۔

یاد رہے کہ چند ہفتے قبل لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس پر منعقدہونے والے اسی طرح کے ایک مذاکرے کو منسوخ کردیا گیا تھا، جس میں بلوچ حقوق کے لیے سرگرم ماما قدیر نے شرکت کرنی تھی، ماما قدیر بلوچستان کے ’’لاپتہ افراد‘‘ کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔اس یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبرز نے اطلاع دی تھی کہ یہ تقریب انٹیلی جنس اداروں کے دباؤ پر منسوخ کی گئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کررہے ہیں کہ آیا انہیں اس کیفے پر ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، جس پر وہ ریاستی مظالم کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف مذاکروں کا انعقاد کرتی تھیں۔

پولیس کے ایک سینئر عہدے دار جمیل احمد نے اتوار کو بتایا ’’ان کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، لہٰذا اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ انہیں ان کی دانشورانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہوگا۔ انہیں کچھ نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہورہی تھیں۔ہم اس پر کام کررہے ہیں کہ ایسا کون کرسکتا ہے۔‘‘


سزا سے بے خوفی کا کلچر


ان کی موت پر غمزدہ ہزاروں سوگواروں نے ان کی تدفین میں شرکت کی۔ اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اس ہلاکت کی باضابطہ مذمت کی۔

لیکن زیادہ تر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات امکان کم ہے کہ ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، اس لیے کہ حالیہ تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو سزا سے چھوٹ ملی ہوئی ہے، جو ملک میں غیر اہم سمجھے جانے والے معتدل مزاج طبقے کو نشانہ بنارہے ہیں۔

گزشتہ سال معروف معتدل مزاج ٹی وی میزبان رضا رومی لاہور میں اپنی کار پر ہوئے بندوق برداروں کے ایک حملے میں بچ گئے تھے، اور ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جبکہ ایک اور اینکر حامد میر کو بلوچستان کے بارے میں ایک ٹی پروگرام کے فوراً بعد کراچی میں گولی ماری گئی تھی، جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔

ان میں سے کسی بھی کیس کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔

ٹی وی اینکر حامد میر، جن کے بھائی نے فوری طور پر اپنے بھائی کو ہلاک کرنے کی کوشش کا الزام ملک کے انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) پر عائد کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ سبین محمود پر حملے میں انہوں نے کئی مماثلتیں دیکھی ہیں۔

حامد میر نے اے ایف پی کو بتایا ’’سب سے زیادہ مشترکہ عنصر تو ماما قدیر بلوچ تھے، اس لیے کہ مجھے بھی دھمکیاں ملی تھیں، جب میں نے انہیں اپنے شو میں مدعو کیا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’مجھے گولیوں کے چھ زخم آئے تھے، اور انہیں بھی شاید چار گولیاں ماری گئیں۔ مجھ پر بھی ان لوگوں نے حملہ کیا تھا، جو موٹرسائیکل چلا رہے تھے، اور ان پر بھی۔ میرے حملہ آوروں کو بھی کچھ لوگوں نے رہنمائی کی تھی جو ایک کار میں بیٹھے تھےاور ایسا ہی معاملے ان کے سانحے میں بھی پیش آیا تھا۔‘‘


اختلافی آوازوں کو خاموش کردو


بائیں بازو کے کالم نگار اور انسانی حقوق کے کارکن ہاشم بن رشید کہتے ہیں کہ ملک کی شہری مڈل کلاس میں اس طرح کے ماحول کو فروغ دیا جارہا ہے کہ اختلافی آوازیں خاموش ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’فسطائیت کا مجموعی ماحول بہت زیادہ پریشان کن ہورہا ہے، جہاں کسی نے کوئی اختلافی رائے پیش کی، اس کو غدار قرار دے دیا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرام ایسے لوگ جو بلوچ عوام کے حقوق کے لیے سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں، یا اقلیتوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہیں، ان پر شدید تنقید کی جاتی ہے اور انہیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، لیکن اس کی کبھی تحقیقات نہیں کی گئی، جبکہ دوسری جانب حکومت فیس بک پر ترقی پسند گروپس سے تعلق رکھنے والے پیجز کو بلاک کردیتی ہے۔

وسائل سے مالامال بلوچستان پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے بڑا ہے، اور سب سے زیادہ غریب بھی۔ یہاں 2004ء سے علیحدگی پسندوں کی جانب سے ریاست کے خلاف بغاوت جاری ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عابدحسین، جنہوں نے جمعہ کے روز منعقدہ اس سیمینار میں شرکت کی تھی، اور سبین محمود کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جانتے تھے، ان کی موت کو ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا۔

انہوں نے کہا ’’میں امید کرتا ہوں کہ ہم ان کے کام کو جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، لیکن میرے اندر ایک شک سا اُبھرتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس بات کی تصدیق بلوچستان پر ایک مذاکرےسے ہوگی جو کراچی یونیورسٹی میں اگلے مہینے منعقد ہونے جارہا ہے، آیا اس کا انعقاد ہوسکے گا، اس کے بعد ہی ہم آگے بڑھ سکیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں