ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف درخواست منظور

اپ ڈیٹ 14 مئ 2015
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتازقادری کو ٹرائل کورٹ نے 1 لاکھ جرمانہ اور دو مرتبہ سزائے موت سنائی تھی — رائٹرز فوٹو
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتازقادری کو ٹرائل کورٹ نے 1 لاکھ جرمانہ اور دو مرتبہ سزائے موت سنائی تھی — رائٹرز فوٹو

سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کی جانب سے اپنی سزا میں کمی اور وفاق کی سابق گورنر پنجاب کے قتل کیس میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات بحال کرنے سے متعلق اپیلیں باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کر لیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ممتاز قادری کی سزا میں کمی اور وفاق کی جانب سے سابق گورنر پنجاب کے قتل کیس میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات شامل کرنے سے متعلق اپیلوں پر ابتدائی سماعت کی۔

ممتاز قادری کے وکیل میاں نصیر نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ممتاز قادری کو 1 لاکھ جرمانہ اور دو مرتبہ سزائے موت سنائی لیکن یہ توہین رسالت کا معاملہ ہے کیونکہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم بطور مسلمان توہین رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتے، تاہم توہین رسالت کے قانون اور اس کے استعمال کو غلط کہنا توہین رسالت کیسے ہو سکتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ریاستی قانون کو برا کہنے اور توہین رسالت میں فرق ہے۔ 'کیا اس طرح سے کسی کو انسانی جان لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے، اگر یہ اجازت دے دی جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟'

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بظاہر ممتاز قادری نے ٹرائل کورٹ میں اپنا جرم تسلیم کیا، ممتاز قادری نے ڈیوٹی کے دوران سلمان تاثیر کو قتل کیا،حالانکہ اسلام میں بدترین دشمن پناہ مانگے تو اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا توہین رسالت کے اقدام پر فیصلہ کرنا ہر شخص کا اپنا اختیار ہے یا یہ فیصلہ کرنے کا اختیار قاضی کا ہوتا ہے؟

میاں نصیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ معاملہ توہین رسالت کا ہو تو عام قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا؟ یہ معاملہ ذاتی رنجش کا نہیں شریعت کا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا اپیلٹ بینچ شرعی معاملات دیکھنے کا اختیار رکھتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالروؤف نے کہا کہ سلمان تاثیر کو دن دیہاڑے مصروف مارکیٹ کے قریب قتل کیا گیا، یہ دہشتگردی کا کیس ہے۔

اس پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیے کہ ذاتی رنجش اور دہشت گردی میں فرق ہوتا ہے۔

ابتدائی دلائل کے بعد عدالت عظمیٰ نے دونوں اپیلیں سماعت کیلئے باقاعدہ منظور کرتے ہوئے کیس اکتوبر تک ملتوی کردیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

خان May 15, 2015 06:34am
جج بیچارے بھی ڈرتے ہوں گے۔ انہوں نے بھی اسی ملک میں رہنا ہے۔ اگر کسی جج نے اس کی سزا بحال رکھی تو سب مولوی اس جج کے دشمن بن جائیں گے۔