'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'

اپ ڈیٹ 21 مئ 2015
رینجرز کے اہلکار اس مقامی ہسپتال کے باہر کھڑے ہیں، جہاں صفورا بس حملے کے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو لے جایا گیا تھا۔ —. فائل فوٹو اے پی
رینجرز کے اہلکار اس مقامی ہسپتال کے باہر کھڑے ہیں، جہاں صفورا بس حملے کے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو لے جایا گیا تھا۔ —. فائل فوٹو اے پی
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی پی
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی پی

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ سانحہ صفورا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں ایک ہی گروہ ملوث ہے جس کے ماسٹر مائنڈ سمیت چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے گرفتار ملزمان کے حوالے سے میڈیا کو تفصیلات فراہم کیا اور بتایا کہ اس گروہ میں شامل ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چاروں گرفتار ملزمان میں سبین محمود کے قتل کا ماسٹر مائنڈ سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جان، محمد اظہر عشرت عرف ماجد اور حافظ ناصر اور ایک اور ملزم شامل ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعید عزیز آئی بی اے سے بی بی، محمد اظہر سرسید یونیورسٹی سے الیکٹریکٹکل انجینئرنگ جب کہ حافظ ماجد کراچی یونیورسٹی سے اسلام اسٹڈیز میں ماسٹرز کر چکا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق یہ ملزمان کراچی میں ڈیبرا لوبو پر حملے اور مختلف علاقوں میں واقع اسکولوں کے باہر بم بھینکنے میں بھی ملوث تھے۔

قائم علی شاہ نے انکشاف کیا کہ یہ افراد بوہری کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہیں جب کہ پولیس کو بھی نشانہ بنانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے رینجرز حکام اور نیوی کے اہلکاروں پر بھی حملے کیے۔

سید قائم علی شاہ نے بتایا کہ ملزمان کے قبضے سے 3 کلاشنکوگ، 9 نائن ایم ایم، لیپ ٹاپ، دستی بم اور دیگر اسلحہ و سامان برآمد کیا گیا۔

انہوں نے اس موقع پر سندھ پولیس کی کارکردگی کی تعریف کی جبکہ محکمہ انسداددہشت گردی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملزمان کو پکڑنے میں بہت مدد کی۔

دہشت گردی میں ملوث کسی سیاسی یا کالعدم تنظیم کا نام لیے بغیر وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب تک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتیں، اس سے پہلے سنگین جرائم میں ملوث اس گروپ کا نام لینا قبل ازوقت ہوگا۔

تاہم انہوں نے اس طرح کے ہائی پروفائل کیسز کو حل کرنے میں پولیس کی شاندار کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے حال ہی میں قائم کیے گئے محکمہ انسدادِ دہشت کے ڈی آئی جی عارف حنیف خان اور دوسرے عہدے دار راجہ عمر خطاب کے لیے پانچ کروڑ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان عہدے داروں قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے شکارپور امام بارگاہ دھماکے اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کے مجرموں اور ان کو سہولیات فراہم کرنے والوں کا سراغ لگایا تھا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ ان کی کارکردگی کے اعتراف میں ان کی ترقی کی سفارش کریں گے۔

صفورا گوٹھ بس سانحے میں ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی را کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قائم علی شاہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بلوچستان سے کراچی تک را فعال تھی، لیکن اس مرحلے پر وہ اس ایجنسی کا نام اعتماد کے ساتھ نہیں لے سکتے۔ یہ صرف اس وقت واضح ہوسکے گا جب جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کرلے گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب تک انہیں چار مجرموں کے بارے میں رپورٹ دی گئی ہے، لیکن اس بات کا امکان موجود ہے کہ بہت سے دوسرے لوگ بھی ان کیسز میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے مجرموں کی گرفتاری پر انہیں فون کرکے مبارکباد دی، اور سندھ پولیس کی خدمات کو سراہا۔


پروفائلز:


اس موقع پر عسکریت پسندوں کے نام، ان کی پروفائلز اور وہ جرائم جن کے ارتکاب کا انہوں نے اعتراف کیا ، کی تفصیلات بھی وزیراعلیٰ نے پڑھ کر سنائیں۔

طاہر حسین منہاس المعروف سائیں نذیر عرف زاہد، عرف نوید عرف خلیل، المعروف شوکت اور المعروف موٹا میٹرکولیٹ، جو صفورا گوٹھ سانحے کا ماسٹر مائنڈ ہے، 1998ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ ایک تربیت یافتہ دہشت گرد ہے، جو بم بنانے اور آر پی جی-7 اور کلاشنکوف جیسے اسلحے کے استعمال کا ماہر ہے۔

اس نے ذاتی طور پر القاعدہ کے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے کئی مواقعوں پر ملاقات کی تھی۔

سعد عزیز المعروف ٹن ٹن عرف جان، سول سوسائٹی کی نمائندہ سبین محمود پر حملے کا ماسٹرمائنڈ ہے، اس نے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی سے بی بی اے کر رکھا ہے۔

وہ 2009ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ سعد عزیز ایک تربیت یافتہ عسکریت پسند ہے، جسے مختلف قسم کے لٹریچر کی تیاری میں مہارت حاصل ہے۔ وہ شہر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے۔

محمد اظفر عشرت عرف ماجد ایک انجینئر ہے، جس نے سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ آف ٹیکنالوجی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ 2011ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

محمد اظفر عشرت کو بم بنانے اور اس طرح کے بموں میں ٹائمرز کی طرز کے الیکٹرانک سرکٹس کے استعمال میں مہارت حاصل ہے۔

حافظ ناصر عرف یاسر جس نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا، 2013ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔

ناصر کو برین واشنگ اور ’جہادی ‘سرگرمیوں کے لیے لوگوں کو تیار کرنے میں مہارت حاصل ہے۔

ان دہشت گردوں نے صفورا گوٹھ قتل عام سمیت ڈیفنس میں سبین محمود کے قتل، فیروزآباد کے علاقے میں امریکی ماہر تعلیم ڈیبرا لوبو پر فائرنگ، نیوی کے افسر پر بم حملہ اور رینجرز کے بریگیڈیر باسط پر خودکش حملہ، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں اسکول پر گرینیڈ حملے اور پمفلٹس پھینکنے، آرام باغ، نارتھ ناظم آباد، بہادرآباد کراچی اور حیدرآباد میں بوہری برادری کی ٹارگٹڈ کلنگ اور بم حملے، ایم ے جناح روڈ، آرام باغ، گلستانِ جوہر، نیپا چورنگی، نارتھ ناظم آباد اور نارتھ کراچی میں پولیس کی گاڑیوں پربم حملے اور گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، شاہ فیصل کالونی اور لانڈھی میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹڈ کلنگ کا اعتراف کیا۔

تبصرے (6) بند ہیں

ڈاکٹرشفیق May 20, 2015 10:04pm
ایک بھی مدرسے والا نھیں ہیں
Ahmad May 21, 2015 12:06pm
@ڈاکٹرشفیق حافظ ناصر
Ahmad May 21, 2015 12:07pm
ان سب کے پیچھے ایک ہی جماعت ہے لیکن نام لکھنے پر کوئی تیار نہیں۔
Isha May 21, 2015 12:35pm
I don't think it's true, they are just making up all to satisfy Aga Khani community & Price Karim Aga Khan.
Isha May 21, 2015 12:37pm
I don't think it's true, they are just making up all to satisfy Aga Khani community & Price Karim Aga Khan.
عادل عمر May 21, 2015 01:02pm
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم مذہبی شدت پسندی کا سبب عموما دینی مدارس کو کہتے ہیں ۔ جب کہ ان کا تعلق تو ہماری عام یونیورسٹی سے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا تعلق مدارس کی اوپن شاخ یعنی کسی مذہبی/نظریاتی طلبہ تنظیم سے ہو۔ بعض طلبہ تنظیمں بھی کسی تنگ نظر دینی مدارس کے کم نہیں۔ ان کے بھی نظریاتی لیچکر ہوتے ہیں۔ اور مختلف طرح کی تربیتی ورکشاپ بھی منعقد کی جاتی ہیں۔